“ڈبل شاہ” پونزی: اقتدار اور تباہی کا بار بار دہرایا جانے والا سلسلہ
پونزی سکیم (Ponzi Scheme) دھوکہ دہی پر مبنی ایک ایسا مالیاتی نظام ہوتا ہے جو کبھی بھی پائیدار نہیں ہوتا ہے اور ناقابلِ عمل طریقوں پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کی سب سے مشہور مثال امریکی سرمایہ کار برنی میڈوف کی ہے جو کہ پونزی سکیم کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی فراڈ تھا، جس میں نئے سرمایہ کاروں کے پیسے سے پرانے سرمایہ کاروں کو منافع دے کر دھوکہ دیا گیا۔اسی طرح پاکستان میں پونزی سکیم ایک “ڈبل شاہ” نے شروع کی تھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی ایک ایسے ہی غیر آئینی اور غیر جمہوری پونزی سکیم کے منہاس چکر میں پھنسی ہوئی ہے، جس میں فوجی اسٹیبلشمنٹ بار بار مداخلت کرتی رہی ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (PTI) کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کوئی منفرد واقعہ نہیں بلکہ ایک پرانے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد سے لے کر جنرل عاصم منیر تک، پاکستان کی سیاست انہی غیر جمہوری اقدامات کے زیرِ اثر رہی ہے، جو وقتی طور پر اقتدار والوں کو فائدہ دیتے ہیں لیکن ملک اور عوام کے لیے تباہی لاتے ہیں۔
سیاسی پونزی سکیم کی ابتدا
پاکستان میں یہ غیر جمہوری روایت 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے آئین ساز اسمبلی کو برطرف کرنے کے ساتھ شروع ہوئی، جس نے ملک میں جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی بنیاد رکھی۔ اس کے غیر آئینی اقدام کو سپریم کورٹ نے قانونِ ضرورت کے تحت درست قرار دیا تھا۔ بعد میں جنرل ایوب خان نے 1958 میں مارشل لا نافذ کر دیا اور بنیادی جمہوریتوں کے نام پر ایک ایسا نظام متعارف کروایا جس میں طاقت کا محور صرف ان کی ذات تھی۔ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے دھاندلی کے ریکارڈ بنائے، جو بعد میں ٹوٹے۔ اس دور میں کچھ معاشی ترقی تو ہوئی، لیکن مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں سیاسی بےچینی بھی اسی پالیسی کا نتیجہ تھی۔1970 کی دہائی میں جنرل یحییٰ خان کے اقتدار میں آنے کے بعد، 1970 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کی واضح جیت کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ اس کا نتیجہ 1971 کی جنگ اور پاکستان کے دو لخت ہونے کی صورت میں نکلا—یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی تھی، جسے وقتی طور پر طاقت حاصل کرنے کے لیے اختیار کی گئی پالیسی نے جنم دیا۔
یہ سلسلہ جاری رہا
1977 میں منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور اسلامائزیشن، سیاسی مخالفین کی گرفتاریوں اور انتخابات میں دھاندلی جیسے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ ڈرگ ٹریفکنگ اور گن رننگ سے ابھرنے والی نودولتیوں کی کلاس کو غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے سیاسی نظام میں نیا مقام عطا کیا۔ جنرل ضیاء کی پالیسیوں نے نہ صرف جمہوری اقدار کو نقصان پہنچایا بلکہ مذہبی انتہا پسندی کو بھی فروغ دیا، جس کے اثرات آج بھی پاکستان بھگت رہا ہے۔1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور طاقت کو طول دینے کے لیے ایک مصنوعی جمہوری نظام قائم کیا۔ ان کا دور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے باعث وقتی مالیاتی فائدے لانے کا سبب تو بنا، لیکن داخلی سیکیورٹی مسائل میں اضافہ کر گیا۔
باجوہ سے منیر تک: نئی بوتلیں پرانی شراب
حالیہ برسوں میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور پھر جنرل عاصم منیر کے دور میں یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا۔ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک، جس کے بارے میں وسیع پیمانے پر یہ یقین کیا جاتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اسے انجینیئر کیا، اس پونزی اسکیم کا تازہ ترین ثبوت ہے۔ پھر جب ایکسٹنشن نہ مل سکی تو جاتے ہوئے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کو چیف آف آرمی سٹاف بننے میں سسٹم کی مدد کی۔ نئے فوجی سربراہ کی خدمات: نوے دنوں میں الیکشن نہ ہونے دینا، 8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں PTI کو انتخابی نشان سے محروم کرنا، انتخابی مہم پر پابندیاں، اور دھاندلی کے الزامات اسی غیر جمہوری رویے کی عکاسی کرتے ہیں جو پہلے کے فوجی آمروں نے پاکستان کی پونزی سکیم کے تحت کیے تھے۔
دھاندلی کے باوجود جب پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں خواتین کی مخصوص نشستیں دینے سے انکار کر دیا گیا، تاکہ ان کی پارلیمانی طاقت کو کمزور کیا جا سکے۔ عمران خان اور دیگر PTI رہنماؤں کے خلاف بے بنیاد مقدمے اور سزائیں اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس کے تحت عوامی مقبولیت رکھنے والے لیڈروں کو راستے سے ہٹایا جاتا ہے۔
پاکستان پر اس کے تباہ کن اثرات
یہ سیاسی پونزی سکیم پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ ہر مداخلت وقتی استحکام تو لاتی ہے، لیکن حکمرانی کے بحران کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔
• قانون کی حکمرانی کمزور ہوئی ہے، جس سے طاقتور طبقے کے لیے جوابدہی کا تصور ختم ہو گیا ہے۔
• معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، کیونکہ سیاسی عدم استحکام سرمایہ کاری کو روکتا ہے۔
• سماجی تقسیم شدت اختیار کر گئی ہے، جہاں انتہا پسندی اور علاقائی بےچینی میں اضافہ ہوا ہے۔
1971 میں پاکستان کا دو لخت ہونا، ضیاءالحق کے دور میں انتہا پسندی، مشرف دور میں داخلی سلامتی کے مسائل، اور موجودہ سیاسی و معاشی بحران، سب اسی پونزی اسکیم کے نتائج ہیں۔
اس منحوس چکر کو توڑنے کی ضرورت
یہ نظام خود کو ہمیشہ نہیں چلا سکتا۔ جیسے مالیاتی پونزی سکیم آخرکار ناکام ہو جاتی ہے، اسی طرح یہ سیاسی کھیل بھی ہمیشہ نہیں چلے گا۔ اس منہوس چکر سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو ان کے اصل نمائندوں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ عمران خان اور PTI کی عوامی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس خواہش کو دبانے کی کوشش مزید سیاسی اور سماجی بحران کو جنم دے گی۔پاکستان کی سیاسی پونزی سکیم اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ مختصر مدتی مفادات کے حصول کے لیے اختیار کی جانے والی غیر جمہوری پالیسیاں، آخرکار طویل مدتی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ غلام محمد سے عاصم منیر تک، اقتدار کے ان پجاریوں نے خود کو بچانے کے لیے ملک کو لامتناہی بحرانوں میں دھکیل دیا ہے۔ عمران خان اور PTI کے ساتھ ہونے والا حالیہ سلوک اس سلسلے کا نیا باب ہے، لیکن اگر اس نظام کو تبدیل نہ کیا گیا تو یہ آخری نہیں ہوگا۔
پاکستان کے مستقبل کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ آیا ہم اس غیر جمہوری منہوس چکر کو توڑ سکتے ہیں یا نہیں۔ ایک حقیقی، جمہوری اور منصفانہ نظام ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ تاہم پاکستان جس عفریت کی گرفت میں ہے وہ آہنی تو نہیں ہے مگر حکمران طبقے کے لیے اتنی زیادہ مناسب ہے کہ وہ اس سے نجات نہیں چاہتا۔ اور وہ لوگ احمق ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ یا کیئر سٹارمر سے سیاسی پونزی سکیم سے نجات کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ عوام کی سرکشی ہی پاکستان کو آزادی دلائے گی، نہ شریف، نہ زرداری اور نہ خان!