سرینا ہوٹل پر حملہ، جس نے افغانستان جنگ کا رخ موڑ دیا
2005 میں بین الاقوامی فرنچائز سیرینا کا افغانستان کے دارالحکومت کابل میں فائیو سٹار ہوٹل کھولنے کا فیصلہ آنے والے دور میں ایک تاریخ رقم کرے گا، یہ اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا۔2001 کے آخر میں سقوط کابل کے بعد 2002 میں مزاحمت کاروں نے افغانستان میں خود کو مجتمع کرتے ہوئے غیر ملکی فوجوں کے خلاف چھاپہ مار جنگ کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔تاہم اس برس مجموعی طور پر افغانستان کی جنگ میں اتحادی فوج کو خاص مزاحمت پیش نہیں آئی۔2003 بھی کسی خاص پیش رفت کے بغیر گزر گیا، چنانچہ امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج خود کو ابھی تک ’فاتح‘ سمجھ رہی تھیں۔سال کے آخر میں سقوط کابل کے دو برس بعد نیٹو سفیروں کی ایک جماعت کابل پہنچی، جنہیں ایک امریکی سفارت کار نے افغانستان میں ’فتح‘ کا مشاہدہ کرایا۔سفیروں کو بے خوف و خطر قندھار کے گلی کوچوں میں گھومنے اور مقامی عمائدین کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے کا موقع ملا۔
اس موقعے پر امریکی سینٹرل کمانڈ سینٹ کام نے ایک بریفنگ میں سفیروں کو بتایا کہ طالبان اب ایک صرف شدہ طاقت (spent force) ہیں۔اس پر سفیروں میں سے بعض کا خیال تھا کہ یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ تاہم واشنگٹن کو اس امر کی صداقت میں کوئی شک نہیں تھا، بلکہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ یہ تھی کہ طالبان کو تہس نہس کردیا گیا ہے۔افغانستان میں ’فتح‘ کا خیال اس قدر قوی تھا کہ سی آئی اے کے اثاثوں اور سپیشل فورسز کو دوسری خلیجی جنگ کے لیے عراق منتقل کردیا گیا۔لیکن بے خطر ماحول میں آنے جانے، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کا یہ منظر طالبان کی جنگی حکمت عملی کا حصہ بنا لیا گیا۔2004 میں افغانستان کے جنگی محاذوں پر مزاحمت اور تگ و تاز بڑھنے لگی۔ خودکش حملے، گھات، آئی ای ڈیز نصب کرنے کے واقعات اور دیگر کارروائیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
2005 میں امریکی فوجی تاریخ کا ایک بدترین آپریشن غیر معمولی نقصان سے دوچار ہوا، جس میں سپیشل آپریشن فورس کے 19 اہلکار مارے گئے۔11 امریکی سیلز کی موت نے اس دن کو امریکی بحریہ کے پرغرور دستوں کے لیے گذشتہ 40 سال میں مہلک ترین دن بنا دیا تھا۔مشرقی افغان صوبے کنڑ کی وادی پیچ میں واقع ایک پہاڑ ’ساوتالوسار‘ کے دامن میں برپا ہونے والا یہ معرکہ امریکی سپیشل آپریشنز فورسز کی تاریخ میں تباہ کن ترین مہم کہلایا۔اعلیٰ ترین تربیت، بہترین ہتھیاروں اور جدید ترین آلات سے مسلح کمانڈو دستوں کو اس قدر مہلک نتائج کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا جو ’آپریشن ریڈ ونگز‘ کے دوران امریکی فوجیوں کو پیش آئے، لیکن اس کے باوجود پینٹاگان اور وائٹ ہاؤس کو اب تک یہ اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا ہو گا۔2006 میں جانی نقصانات کا سلسلہ امریکی فوج سے بڑھ کر نیٹو فوجیوں تک پھیل گیا۔ اس برس 39 برطانوی اور 54 دیگر ملکوں کے سپاہی موت کے گھاٹ اترے۔گذشتہ برس یہ تعداد محض 32 تھی، اس برس 98 امریکی فوجی مارے گئے۔ اس وقت تک کابل بہرحال اتحادی افواج کی محفوظ پناہ گاہ تھا اور اسی شہر کے ایک محفوظ علاقے میں سرینا ہوٹل بھی کام شروع کر چکا تھا۔
کاروباری حوالے سے یہ اچھا فیصلہ سمجھا گیا۔ غیر ملکی گاہکوں کی تواضع ایک نفع بخش کاروبار تھا۔ ان میں فوجی افسران، بین الاقوامی میڈیا نمائندے اور سفارت کار وغیرہ شامل تھے۔البتہ یہ کوئی نہیں جان سکا تھا کہ یہی سیف زون طالبان کی کمان میں ایک پرکشش ہدف کے طور پر مارک ہو چکا تھا۔ ادھر واشنگٹن میں حالات کی پرامید تصویر دیکھی جا رہی تھی۔مجموعی طور پر 2007 میں اتحادی فوج نے 50 سے زائد طالبان کمانڈروں سمیت متعدد مزاحمت کاروں کو مار دیا لیکن مزاحمت کی شدت اور حجم نے مغربی ذرائع ابلاغ کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ طالبان کے پاس افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں، لہٰذا جنگجوؤں کی اموات صورت حال کو بہتر بنانے کا راستہ ثابت نہیں ہو سکتیں۔مغربی میڈیا کہہ رہا تھا کہ 2007 میں مزاحمت نمایاں طور پر بڑھی اور طالبان بہت بے خوف ہوکر کارروائیاں کررہے ہیں۔2007 کے دوران افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ایک برس میں اموات 100 کی حد پار کر گئیں جبکہ مجموعی اتحادی اموات 200 سے اوپر چلی گئیں۔
2008 کے ابتدائی دنوں میں پہلی بار افغانستان جنگ کی واضح سمت ظاہر ہوئی۔ 14 جنوری، 2008 کو کابل سرینا ہوٹل پر افغان مزاحمت کاروں نے ایک بڑا حملہ کیا۔افغان دارالحکومت کے بہترین طور پر محفوظ خیال کیے جانے والے مقامات میں سے ایک سرینا ہوٹل پر یہ ڈرامائی حملہ عسکریت پسندوں کی آمد کا نشان سمجھا گیا۔ امریکی تجزیہ نگاروں نے کابل میں اس حملے کے اثرات عیاں کر دیے۔حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک امریکی اخبار نے صورت حال کی ایسی تصویر پیش کی جس نے دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔موقر امریکی اخبار نے اس حوالے سے ایک جامع رپورٹ میں بتایا کہ انسداد دہشت گردی کے تھنک ٹینک رینڈ کارپ نے سرینا پر حملہ طالبان کے اس امر کا مظاہرہ قرار دیا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں ’یہاں تک کہ کابل کے قلب میں بھی‘ غیر ملکیوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ایساف کے سپہ سالار جنرل ڈین میک نیل نے سرینا ہوٹل پر طالبان کے حملے کو ’ایک دیدنی وار‘ سے تعبیر کیا۔موقر امریکی اخبار نے اس حملے کی رپورٹ دیتے ہوئے لکھا کہ سرینا ہوٹل میں سخت سکیورٹی کے باوجود بندوق برداروں نے گرینیڈ پھینکا اور AK-47 اسالٹ رائفلز سے فائرنگ کی، اور ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔حکام نے بتایا کہ مرنے والوں میں ایک امریکی اور ایک ناروے کا صحافی بھی شامل ہے۔فوری ردعمل کے طور پر نصف درجن ہمویز میں 30 سے زیادہ امریکی فوجی ہوٹل پہنچ گئے، اور قریب واقع امریکی سفارت خانے کے سکیورٹی اہلکار امریکی شہریوں کی تلاش میں عمارت کے اندر سے بھاگے۔سیاٹل کی سوزین گرفن جو حملے کے وقت ہوٹل کے جم میں موجود تھیں، انہوں نے کہا کچن تک پورے راستے کے فرش پر خون تھا۔ لابی میں بہت زیادہ خون تھا۔اخبارنے مزید لکھا کہ 2001 میں طالبان کے خاتمے کے بعد یہ کابل میں کسی ہوٹل پر ہونے والا سب سے مہلک براہ راست حملہ تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حملہ شام چھ بجے کے قریب شروع ہوا، جب ناروے کا سفارت خانہ سرینا میں وزیر خارجہ جوناس گہر سٹوئر کے دورے کے لیے ایک میٹنگ کی میزبانی کر رہا تھا۔اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 177 کمروں پر مشتمل سرینا ایک نیا لگژری ہوٹل ہے جسے غیر ملکی سفارت خانے اکثر ملاقاتوں، پارٹیوں اور عشائیے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔مغربی مہمان اکثر وہاں رہتے ہیں، کھاتے ہیں اور ورزش کرتے ہیں۔ امریکی اخبارنے لکھا کہ یہ ہوٹل کابل کے مرکز میں واقع ہے اور صدارتی محل کے قریب ہے، یہ کئی سرکاری وزارتوں اور ایک ضلعی پولیس سٹیشن کے بھی قریب ہے۔امریکی میڈیا کی اس رپورٹ نے افغانستان کی جنگ کے اصل حالات کا انکشاف کرنے والی خبر کا درجہ حاصل کیا۔پہلی بار دنیا کو معلوم ہوا کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں شکست پذیر ہیں۔ اس کارروائی کے بعد کابل کی رونقیں ماند پڑ گئیں اور کاروبار متاثر ہوئے۔
خصوصاً غیر ملکی افواج کی سماجی زندگی کو دھچکا پہنچا، لیکن اب انہیں لگا کہ وہاں سلامتی کی صورتحال ایک دھوکا تھی، کابل میں حقیقتاً کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔آمدہ مہینوں میں جب کوہساروں پر برف پگھل جاتی، افغانستان کے اندر ایک موسم پیکار کی آمد آمد تھی۔صرف یہی نہیں بلکہ80 کی دہائی میں سوویت یونین کو پیش آئے حالات امریکی و نیٹو فوجوں کی طرف بھی، تیزی سے بڑھتے دکھائی دے رہے تھے۔امریکی وزیر دفاع نے اتحادی نیٹو افواج کو طعنہ دیا کہ وہ سرکشی کے خلاف لڑنا ہی نہیں جانتے!لاس اینجلس ٹائمز کی 16 جنوری، 2008 کو شائع پیٹر سپیگل کی رپورٹ میں رابرٹ گیٹس کا یہ تبصرہ، جو دراصل ایک انٹرویو تھا، ان الفاظ میں تھا:ایک غیر معمولی عوامی تنقید میں، وزیر دفاع رابرٹ ایم گیٹس نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اس وقت جنوبی افغانستان میں تعینات نیٹو افواج گوریلا شورش کا مقابلہ کرنا نہیں جانتی ہیں، یہ کمی طالبان کے خلاف لڑائی میں بڑھتے ہوئے تشدد میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔‘
اس برس کا موسم بہارافغانستان میں امریکی فوج کے لیے خزاں بن گیا۔ پہلی بار جنگ ماپنے کے تمام پیمانے بدترین صورت اختیارکر چکے تھے۔مئی تا جولائی کی سہ ماہی میں امریکی اموات عراق جنگ سے زیادہ ہو گئیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ 2008 کے وسط میں افغانستان کی جنگ میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 500 تک پہنچ گئی۔صورت حال افغانستان کے محاذ کو عراق جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں نسبتا دھندلائے اوردبے ہوئے منظرسے نکال کر شہ سرخیوں تک لے آئی۔اس برس کے پہلے نصف میں مزاحمت کاروں کے حملے گذشتہ برس کے اسی دورانیے کی نسبت 52 فیصد بڑھ گئے۔اب امریکی عوام جاننے لگے تھے کہ افغانستان ان کے جوانوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں۔ 500 اموات کا سنگ میل افغانستان میں امریکی تباہی کا نقطہ آغاز بن گیا۔سرینا ہوٹل پر حملے کے بعد افغانستان کی جنگ ہر گزرتے دن امریکہ اور نیٹو افواج کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی۔