بحرین میں شیعہ برادری کے خلاف نیا اشتعال انگیز اقدام

2501495.jpg

رپورٹ کے مطابق، بحرین کی پارلیمنٹ نے ایک ایسا قانون منظور کر لیا ہے جس کے تحت سنی اور جعفری اوقاف کو "شورائے عالی برائے اسلامی امور” کے تحت منتقل کر دیا جائے گا۔ اس اقدام کو شیعہ برادری کی خودمختاری محدود کرنے کی ایک اور کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔بحرینی پارلیمنٹ نے اکثریتی رائے سے اس فیصلے کی منظوری دی، جس کے تحت دونوں اوقاف کی نگرانی اور ان کا انتظام شورائے عالی برائے اسلامی امور کے سپرد کر دیا جائے گا۔ حکومتی مؤقف کے مطابق، اس فیصلے کا مقصد مساجد اور اوقاف کے بہتر انتظام کو یقینی بنانا ہے۔پارلیمنٹ کے ایک رکن احمد قراطہ نے کہا کہ چونکہ شورائے عالی کے تحت چلنے والی مساجد کا انتظام بہتر ہے، اس لیے سنی اور جعفری اوقاف کو بھی اس کے ماتحت کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

شیعہ اوقاف کی خودمختاری پر اثرات

یہ فیصلہ بحرین کی مذہبی تنوع کی پالیسی کے برعکس ہے اور شیعہ برادری کے مذہبی، ثقافتی اور مالیاتی حقوق پر براہ راست اثر انداز ہوگا۔ شیعہ اوقاف کو تاریخی طور پر ایک خودمختار حیثیت حاصل رہی ہے، خاص طور پر بادشاہ حمد بن عیسی کی حکومت سے قبل، جب حکومت اوقاف کے انتظامات، عدالتی امور میں مداخلت نہیں کرتی تھی۔پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت ایک مخصوص مذہبی نقطہ نظر کو مسلط کر رہی ہے اور شیعہ برادری کے فیصلوں کو حکومتی کنٹرول میں لانا چاہتی ہے۔

یہ فیصلہ ایک ایسی پارلیمنٹ کے ذریعے کیا گیا ہے جسے عوامی نمائندگی حاصل نہیں۔ 2018 اور 2022 کے انتخابات میں اپوزیشن کی شرکت کو زبردستی روکا گیا، جس کے باعث پارلیمنٹ حقیقی عوامی جذبات کی عکاسی نہیں کرتی۔ متعدد سیاسی مخالفین کو یا تو جلاوطن کر دیا گیا ہے یا قید میں ڈال دیا گیا ہے، اور انتخابی حلقوں کی تقسیم بھی حکومت کے مفاد میں کی گئی ہے۔

شیعہ برادری کے لیے ممکنہ نتائج

یہ اقدام شیعہ برادری کے باقی ماندہ مذہبی اور مالیاتی حقوق سلب کرنے کی کوشش ہے۔ اس فیصلے کے بعد، حکومت براہ راست شیعہ اوقاف کے مالیاتی معاملات، زمینوں اور دیگر اثاثوں پر کنٹرول حاصل کر لے گی، جس سے کسی بھی طرح کے مالیاتی استحصال کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

حکومت کی مکمل گرفت اور علما کی بے بسی

بحرین میں حکومت پہلے ہی شیعہ اوقاف پر سخت کنٹرول رکھتی ہے اور علمائے کرام کے خودمختاری کے مطالبات کو مسترد کر چکی ہے۔ یہاں تک کہ اوقاف کے اندرونی ارکان بھی حکومتی فیصلوں پر اعتراض کرنے کی آزادی نہیں رکھتے، کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔اس کی ایک مثال 2011 میں سامنے آئی جب بحرینی بادشاہ نے شیعہ اوقاف کے تمام دس ارکان کو برطرف کر دیا، کیونکہ انہوں نے مساجد کی مسماری کے خلاف احتجاجی بیان جاری کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے