غزہ کی جنگ میں صیہونی حکومت کی شکست کی چار اہم وجوہات

66b51b8814464_328.jpg

غزہ پٹی میں 7 اکتوبر (2023) کی صبح سے شروع ہونے والے طوفان نے صیہونی حکومت کے تسلّط کو اس قدر توڑ دیا کہ ماہرین کے مطابق اسرائیل کے لیے طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے کے حالات کی طرف لوٹنا، ناممکن ہے۔ اس انتہائی غیر متوازن جنگ کے تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کی مختلف اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی پہلوؤں میں ناکامی کے آثار پوری طرح ظاہر ہو چکے ہیں۔ شاید اس جنگ کو عالمی آزادی کی تحریکوں کی تاریخ میں عدیم المثال قرار دیا جا سکتا ہے؛ جہاں ایک چھوٹے سے علاقے میں ایک گوریلا گروہ نے ایک سال سے زائد عرصے تک، ایک ایسی حکومت کے سامنے مزاحمت کی، جو مکمل طور پر ہر قسم کے جنگی ساز و سامان اور اسلحوں سے لیس تھی؛ اس کے علاوہ دنیا کی تمام بڑی طاقتوں نے اس کی مدد کی۔ اس جنگ کے دوران صیہونی حکومت نے یورپ اور امریکہ کی بھرپور حمایت سے دنیا کی آنکھوں کے سامنے انسانی حقوق کے تمام قوانین اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑادی؛ جبکہ بین الاقوامی تنظیمیں اس صورت حال کو دیکھ رہی تھیں۔

رہائشی علاقوں، کلینکس، ہسپتالوں، اسکولوں، مساجد پر حملے، امدادی قافلوں پر حملے، خواتین اور بچوں اور صحافیوں کا قتل عام ، فلسطینی قیدیوں پر صہیونی فوجیوں کے جنسی استحصال ، شہداء کی لاشوں کی مسخ کرنا وغیرہ، سب انسانیت کے خلاف جرم تصور کیے جاتے ہیں، کہ اگر کسی اور حکومت نے ارتکاب کیا ہوتا ،تو ضرور اس حکومت کے رہنماؤں پر نیورمبرگ جیسی عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا۔ اس جنگ کے دوران ایران سے لے کر لبنان، عراق اور یمن تک مزاحمتی محاذ نے ’’ وحدت میدان‘‘ کے نظریے کے مطابق فلسطینی مجاہدین کے شانہ بشانہ رہ کر میدان کو زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے صہیونی دشمن کے لیے تنگ کردیا۔ اور اس مقدس راستے ميں مزاحمتی محاذ کے بہت سے کمانڈروں اور خاص کر حزب اللہ لبنان کے بہادر ، ایما نداراور وفادار سیکرٹری جنرل نے "شہید سید حسن نصر اللہ(رہ) ” نے جام شہادت نوش کیا۔ ایک سالہ جنگ میں صیہونی حکومت نے کوئی ایسی ٹھوس کامیابی حاصل نہیں کی، جس پر وہ بھروسہ کر کے "طوفان الاقصیٰ” سے پہلے کے حالات کو واپس کر سکے، اور اسی وجہ سے اس نے اپنے مظالم اور جارحیت کا دائرہ بڑھا دیا ۔ اس مضمون میں ہم غزہ جنگ کے ایک سال مکمل ہونے پر صہیونی حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجوہات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

جنگ کیوں شروع ہوئی؟

یورپ اور امریکہ میں بہت سے لوگ صیہونی حکومت کو بری کرنے کی غرض سے جنگ کے آغاز کو 7 اکتوبر 2023 کی صبح سے روایت کرتے ہیں۔ اگر کوئی ، جنگ کا نقطہ آغاز 7 اکتوبر بروز ہفتہ صبح 6:30 بجے سمجھتا ہے، تو فطری طور پر اس مفروضے کی بنیاد پر اسرائیل مظلوموں کی پوزیشن میں ہوگا، اور فلسطینی مزاحمتی قوتیں ظالم کی پوزیشن میں ہوں گی؛ لیکن در حقیقت جنگ 7 اکتوبر سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے مغرب کا مین اسٹریم میڈیا ، دانستہ طور پر پیش نہیں کرتا، اور نہ اسے اٹھاتا ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد شروع ہونے والی جنگ، گزشتہ سال کے دوران خطے اور دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ کی خبروں کی سرخی بنی ہوئی ہے۔ اس عرصے کے دوران مغربی میڈیا اور حکام کے موقف کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپسی ہم آہنگی اور بلاشبہ مکمل منافقت کے ساتھ اسرائیلی حکومت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، حماس کی کارروائیوں کو "غیر معقول”، "ناقابل معافی” اور "دہشت گردانہ” قرار دیتےہیں

۔ گویا حماس نے بغیر کسی پیشگی پس منظر کے ایک جمہوری حکومت کے خلاف آپریشن اورمنصوبہ بندی کی؛ اور اس پر عمل بھی درآمد کیا ۔ اس دوران اس نے مخالف حکومت کی فوجیوں کو ہلاک کیا اور ان میں سے کئی کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔ علم نفسیات میں یہ ایک اصطلاح ہے جسے ” خیالی سچ کا اثر "false truth effect یا ” imaginary truth” کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ معلومات کے وسیع پیمانے پر دہرائے جانے کے بعد ،معلومات کو درست ماننے کا رجحان، اگر چہ وہ جھوٹ بھی کیوں نہ ہوں، ان معلومات کے مقابلے میں جو دہرائی نہیں جاتی ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں اس کے زیادہ قابل اعتماد ہونے کا باعث بنتا ہے۔ ” خیالی سچ کا اثر ” پر مبنی نظریے کے مطابق آپ کو سامعین سے اپنے دعوے کو ماننے کے لیے دلائل دینے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کا اپنے دعوے کو میڈیا میں بڑے پیمانے پر شائع کر دینا ہی کافی ہے، تاکہ رائے عامہ اس دعوے کو قبول کر لے۔

نپولین کا بھی یہی خیال تھا کہ صرف "دعوے” کو دہرانے سے ہی اسے "حقیقت” میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؛ اور اس اصول کی بنیاد پر اس دور میں مغرب میں سیاسی اور میڈیا اسٹریم ایک دوسرے کی ہماہنگی کے ساتھ غیر حقیقت پر مبنی خبر کو ” بلاوجہ حملہ”کے عنوان سے دہراتے رہتے ہیں۔ بقول کیٹلن جانسٹن، آسٹریلوی مصنف اور صحافی، ” اسرائیل پر حماس کا بلا وجہ حملہ” کا جھوٹ، مغربی سیاسی اور میڈیا اسٹریم نے شائع کیا ہے، جس کا مقصد مغرب میں اپنے سامعین کی تنقیدی سوچ کو نظرانداز کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے اس جھوٹ کو بڑے پیمانے پر دہرانا ہے؛ تاکہ سامعین اسرائیل کے خلاف "حماس کی بلا اشتعال جارحیت” کے صریح جھوٹ پر یقین کریں اور ظالم اور مظلوم، جارح اور محافظ کی جگہ بدل دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 7 اکتوبر (2023) کی صبح کے آپریشن میں کچھ بھی غیر معقول اور بے دلیل نہیں تھا۔ بلکہ اس آپریشن کی وجوہات اور پس منظر ہیں، جو کہ مین اسٹریم میڈیا اور مغربی حکام جان بوجھ کر اور ریاکارانہ طور پر ، مغرب میں رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے ليے ذکر نہیں کرتے ۔

فلسطینی نژاد امریکی مصنف اور کامیڈین "عامر زہر "حماس کی کارروائیوں کے پس منظر کے بارے میں ٹوئٹر پر لکھتے ہیں:” 75سال نسلی انخلا ، 15 سال کا محاصرہ، فلسطینی زمینوں کی ضبطی، فلسطینی شہروں میں قتل عام، فلسطینی مقدس مقامات کی بے حرمتی، فلسطینیوں کے گھروں پر روزانہ حملے، پوری قوم کی مستقل تذلیل یہ سب اس آپریشن کی وجوہات ہیں؛ لہذا آج کے حادثے کے حوالے سے کچھ بھی بے وجہ نہیں ہے”۔

غزہ پٹی جس کا شمار دنیا کے گنجان ترین علاقوں میں ہوتا ہے، صیہونی حکومت کے ساتھ 2008 سے 2014 تک تین بڑی جنگیں ہوئیں ہیں۔ جن کے نتیجے میں ہزاروں افراد شہید اور زخمی ہوئے ہيں ۔ شہداء میں بڑی تعداد خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

گزشتہ 15 برسوں کے دوران صیہونی حکومت کی جانب سے غزہ پٹی کو شدید تریں زمینی، فضائی اور سمندری محاصرے میں رکھا گیا ہے ، اور تقریباً 20 لاکھ سے زائد افراد کی آبادی پر مشتمل غزہ پٹی، دنیا کی سب سے بڑاکھلا قید خانے ميں تبدیل ہوچکی ہے۔ ایک ایسی حقیقت جسے مغربی حکام اور میڈیا ہمیشہ نظر انداز کر تے آئے ہیں۔ در اصل حقیقت یہ ہے کہ 15 اکتوبر کی صبح غزہ کے قیدی صرف اپنے جیلروں کی باڑ کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اسرائیل کی جانب سے ہونے والے مظالم اور جرائم کا صرف مختصر سا ردّ عمل دکھا یا تھا۔ یہاں تک کہ گر ہم اسرائیل اور اس کے مغربی حامیوں کے جھوٹے دعوے کے مطابق بھی 7 اکتوبر کو ہی جنگ کا آغاز مانیں، تب بھی بین الاقوامی قانون کے مطابق صیہونی حکومت کی طرف سے گذشتہ ایک سال میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کا ، "طوفان الاقصیٰ ” آپریشن سے کوئی تناسب نہیں ہے؛ اور یقینی طور پر صہیونی حکومت نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ایسے جرائم ،جن میں سے کچھ بین الاقوامی عدالتوں کی طرف سے دستاویز قرار دیے گیے ہیں، اور اسی بنیاد پر اسرائیلی حکومت کے سربراہوں کے لئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔ لیکن تمام تر ظلم و بربریت کے باوجود، مختلف وجوہات کی بنا پر جن کا ہم ذیل میں ذکر کریں گے، صیہونی حکومت تمام میدانوں میں جنگ ہار چکی ہے، اور” نیتن یاہو” کا ان دنوں پاگل پنی بالکل اسی مسئلے کی وجہ سے ہے۔

1۔ حماس کو تباہ کرنے اور یرغمالیوں کو آزاد کرانے میں ناکامی

نیتن یاہو نے غزہ جنگ کا آغاز کرنے کے اہم مقاصد میں سے ایک حماس اور غزہ پٹی میں مزاحمت کو تباہ کرنا، اعلان کیا تھا۔ جنگ کے بالکل ابتدائی دنوں میں، نیتن یاہو اور حکومت کے دیگر رہنماؤں نے، یہودی ربّیوں کی تحریف شدہ تورات کا حوالہ دیتے ہوئے، جنگ کا مقصد "فلسطینی انسان نما جانوروں” کے خلاف لڑنا قرار دیا تھا ؛ اور وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر، غزہ میں مزاحمت کا کوئی نام نشاں باقی نہیں رہے گا؛ لیکن ایک سال سے زائد عرصے تک جنگ مسلّط کرنےکے بعد بھی ، صہیونی ماہرین اور حکام اور حتیٰ کہ مغربی ماہرین کے بیانات کے مطابق نیتن یاہو نہ صرف اس ہدف تک نہیں پہنچا، بلکہ وہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا ہے۔ دوسری جانب گذشتہ ایک سال کے دوران صیہونی حکومت نے اپنے بہت سے فوجیوں، افسروں اور فیلڈ کمانڈروں کو کھو دیا ہے، جس کے باعث فورسز کی کمی کے باعث وہ پناہ گزینوں کو اسرائیلی شہریت دینے اور انہیں فوج میں بھرتی کرنے پر مجبور ہے۔

"واشنگٹن ڈی سی” میں قائم "سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز ( "Center for Strategic and International Studies) اسرائیل کی حماس کو تباہ کرنے میں ناکامی کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر آپ صلح چاہتے ہیں، تو حماس کو تباہ کر دیں۔ اگر آپ سلامتی چاہتے ہیں، تو حماس کو تباہ کر دیں۔اگر آپ اسرائیل، فلسطینیوں اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل چاہتے ہیں، تو حماس کو تباہ کر دیں۔ امریکی صدر بائیڈن نے بھی قبول کر لیا تھا کہ حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ اسرائیل کے پاس حماس کو تباہ کرنے کے تین آپشن ہیں: سب سے پہلا آپشن، حماس کے رہنماؤں کو مارنے یا گرفتار کرنے کی کوشش کرنا اور حماس کے استعمال کردہ وسیع حمایتی نیٹ ورکس کو تباہ کرنا ہے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حماس کی طاقت کو اپنے حریفوں کو مضبوط کرکے تباہ کیا جائے اور ان کے ليے راستہ ہموار کیا جائے، تا کہ وہ بآسانی غزہ پٹی میں حماس کی جگہ لے سکتے ہیں۔ آخری آپشن یہ ہے کہ حماس کے نظریے

( آیڈیولوجی)کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے، جو اسرائیل کے خلاف پرتشددآمیز مزاحمت کو فروغ دیتا ہے۔ ان تمام اھداف کو حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور ہر ایک اپنا منفرد اور مخصوص چیلنج رکھتا ہے۔اس تھنک ٹینک کے ماہرین کے مطابق اسرائیل حماس کو تباہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ حماس کے رہنماؤں کا قتل بھی ایک خام خیالی ہے، جو اس سے قبل امریکا نے طالبان اور القاعدہ کے رہنماؤں پر کیا تھا؛ لیکن وہ ان جماعتوں کو ختم نہیں کرسکا۔ حماس کی جگہ فلسطینی اتھارٹی کو لانا بھی عملی طور پر ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ اس گروہ کو فلسطین میں کوئی مقبولیت حاصل نہیں ہے اور اکثر لوگ اسے اسرائیل کے آلہ کار سمجھتے ہیں ۔ کوئی بھی حکومت یا بین الاقوامی ادارہ غزہ کے نظام کو چلانے اور اس کے مسائل اور مشکلات کو اٹھانے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔

اس رپورٹ کے تیار کرنے والوں کے مطابق اس وقت حماس کی آیڈیولوجی کو تباہ کرنا ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ اس کی جگہ کوئی دوسری جذاب متبادل ‎ آیڈیولوجی وموجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، 7 اکتوبر (2023) کی حالیہ جنگ کے آغاز کے بعد فلسطینی عوام میں مزاحمتی نظریہ کو زیادہ جذّابیت حاصل ہو گیا ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیل اسٹریٹجک فتح حاصل کرنے اور غزہ پٹی میں حماس کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتاہے؛ اور آنے والے برسوں میں بھی غزہ کے مسائل اور حماس کی موجودگی سے روبرو رہے گا۔

"David Ignatius” نے واشنگٹن پوسٹ کی طرف سے شائع ہونے والے ایک تجزیے میں بھی اس بارے میں لکھا ہے: ایک عربی کہاوت متنبہ کرتی ہے کہ اندر جانے سے پہلے آپ کو باہر نکلنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ یہ تمثیل غزہ جنگ میں اسرائیل کے داخلے پر دردناک طور پر لاگو ہوتی ہے؛ ایک ایسی جگہ جہاں سے باہر نکلنے کے لیے کوئی منسجم حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ اسرائیل حماس کی فیصلہ کن شکست چاہتا ہے ، لیکن مذکورہ ہدف کا حصول ذہن سے بہت دور لگتا ہے۔

عبرانی زبان کے اخبار "Yediot Aharonot” نے بھی اس ہفتے کے دوران اور صیہونی سیکورٹی ذرائع کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ "غزہ کے باشندوں میں سے کوئی بھی حماس کے مخالف نہیں ہے، اور حماس کی افواج غزہ میں ہر جگہ موجود ہیں، حتیٰ کہ ان جگہوں پر بھی موجود ہیں، جہاں پر اسرائیل نے قبضہ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ” اس صہیونی اخبار کی رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کے افسران خوفزدہ ہیں کہ حماس کی ایک نئی تنظیم غزہ میں جارح صیہونی افواج پر حملے شروع کردے ۔

” Yediot Aharonot ” اخبار مزید لکھتا ہے کہ ستمبر کے وسط میں نیتن یاہو کی کابینہ نے ملک کی سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ حماس اب بھی غزہ میں حکومت کر رہی ہے اور وہ غزہ میں اسرائیلی قابض حکومت کی فوج پر زیرزمین اور سطح زمین پر حملے کر رہی ہے۔ اس سے قبل معروف صہیونی جنرل "اسحاق برک” نے معاریو اخبار میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ "جنگ کے دوران وہ چھ بار نیتن یاہو سے ملے اور انہیں یقین ہوا ہے کہ نیتن یاہو بھی جانتے ہیں کہ حماس کو تباہ نہیں کیا جا سکتا”۔ "حماس کی مکمل تباہی تک جنگ کا تسلسل” کے موضوع کے ساتھ نیتن یاہو کے نعرے کا حوالہ دیتے ہوئے، انھوں نے نوٹ کیا کہ "یہ نعرہ صرف ان انتہا پسند عناصر کو مطمئن کرنے کے لیے ہے، جو نیتن یاہو کی کابینہ میں موجود ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیل، حماس اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کا جاری رہنے کی وجہ سے اب یہ حکومت خستہ ہو چکی ہے ، اور یہ اسی حکومت کی نابودی کا باعث بنے گا ، نہ حماس اور حزب اللہ ۔

یرغمالیوں کی رہائی اور مقبوضہ علاقوں میں ان کی بحفاظت واپسی صیہونی حکومت کے جنگ شروع کرنے کے دوسرے مقاصد میں سے ایک تھی ؛ لیکن یہ ہدف اب تک حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ اور ماہ نومبر میں قیدیوں کے ابتدائی تبادلے کے علاوہ، صیہونی حکومت یرغمالیوں کو آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور کئی یرغمالی بھی خود صیہونی حملوں میں مارے جاچکے ہیں۔

2۔ اسرائیلی معیشت کا زوال

بہت سے ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ جنگ نے نہ صرف اسرائیل کی فوجی طاقت کو تباہ کیا ہے، بلکہ اس حکومت کی معیشت کو بھی تباہ کر دیاہے ۔ اس جنگ کے زیر اثر اسرائیل کی معیشت دن بہ دن ایک نئی تنزلی کا شکار ہو رہی ہے۔ عام تناظر میں صیہونی حکومت کی معیشت پر غزہ کی جنگ کے تباہ کن نتائج کو ان موارد میں شامل کیا جا سکتا ہے: ” دسیوں ہزار کمپنیوں کا دیوالیہ ہو جانا اور مقبوضہ علاقوں سے بڑی سرمایہ کار کمپنیوں اور ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کا انخلا، کرنسی کی قدر میں کمی، حکومت کی سٹاک مارکیٹ کا زوال، غیر ملکی سیاحوں کے داخلے پر روک لگانا، مقبوضہ علاقے اور سیاحت اور سیاحت کی آمدنی میں کمی، جنگی علاقوں میں زرعی کاموں کی معطلی، صیہونی حکومت کے تیل، گیس اور ریفائنری کے کاموں میں خلل، محور مقاومت کی طرف سے وسیع سمندری ناکہ بندی کی وجہ سے صیہونی حکومت کی بندرگاہوں کے ذریعے برآمدات اور درآمدات کی معطلی، بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں کی معطلی جیسے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر، بجٹ کے خسارے میں تیزی سے اضافہ، غذائی تحفظ میں کمی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی، بنیادی اشیا کی قلت اور نایاب، صیہونی حکومت کے سرکاری شعبوں میں پیداواری شرح میں تیزی سے کمی، بین الاقوامی اداروں کی جانب سے حکومت کی کریڈٹ ریٹنگ میں زبردست کمی، حکومتی قرضوں میں اضافہ اور مقبوضہ علاقوں سے صیہونی سرمایہ داروں کے فرار ہونا "۔

اسرائیلی حکومت کی طرف سے مزاحمتی محور کے ساتھ ہمہ گیر جنگ میں داخل ہونے کا خوفناک سیناریو، خود نیتن یاہو کی کابینہ کے اقتصادی حکام اور اقتصادی ماہرین کے مطابق، حکومت کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ کر سکتا ہے۔ صیہونی حکومت کی داخلی سلامتی اکیڈمی نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے ساتھ جنگ کا دائرہ وسیع کرنے سے اسرائیل کو 50 ارب ڈالر تک کا نقصان ہو گا۔ لبنانی الاخبار نامی جریدے کی رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کی داخلی سلامتی اکیڈمی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ علاقوں کے شمال میں وسیع جنگ کی وجہ سے اس حکومت کی معیشت کو 2024 میں 10 فیصد کے جی ڈی پی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر یہ اندازہ درست ہو، تو اس واقعے سے ہونے والا نقصان 50 ارب ڈالر ہوگا ۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ صیہونی حکومت کی معیشت نازک حالت میں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اخبار کی چیف اڈیٹر، ( ریچل چیسن) کی ایک رپورٹ جو مغربی افریقہ میں شائع ہوا تھا ، اس ميں انہوں نے کہا ہے کہ "جب کہ اسرائیل کی معیشت میں کریڈٹ ریٹنگ میں کمی اور جی ڈی پی میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی ہے، اسرائیل سے باہر جانے والی کمپنیوں اور ملازمتوں کی تعداد میں بھی شدّت سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اس امریکی اخبار نے مزید لکھا ہے کہ: اسرائیلی بحری جہازوں کے خلاف یمن کی ناکہ بندی کے جاری رہنے، اور شمال میں قابض اسرائیلی حکومت کے اڈوں اور ہیڈکوارٹرز پر حزب اللہ کی جانب سے لبنان اور غزہ پٹی کی عوام کی حمایت میں کرنے والے وسیع اور دقیق حملوں کی وجہ سے اسرائیل کی معیشت کےکمزور ہونے ميں کافی حد تک شدّت آچکی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، اس مسئلے کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ صیہونی حکومت کی صرف سے حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے نتیجہ ميں وسیع پیمانے پر ہونے والے اقتصادی اور عسکری نقصانات پر پردہ پوشی کرنے کے باوجود، وہاں کے ذرائع ابلاغ ان نقصانات کا تذکرہ کر رہاہے۔ اس کے علاوہ فرانس کے خبر رساں ادارےکے مطابق بھی بین الاقوامی اداروں "فچ” اور "اسٹینڈرڈ اینڈ پورز” نے بھی اس سال صیہونی حکومت کی کریڈٹ ریٹنگ کم کی ہے۔

3۔ روایت گری کی جنگ میں ناکامی

اس جنگ کے دوران جن اہم ترین شعبوں میں صیہونی حکومت کو سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا، ان میں سے ایک سابقہ جنگوں کے برعکس "شناختی جنگ” یا "بیاناتی جنگ” کے میدان میں ناکامی تھی۔ ماضی کی جنگوں میں، مغرب میں حکومتوں اور مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ نے عالمی رائے عامہ تک معلومات کے بہاؤ پر بھاری کنٹرول کے ساتھ جنگ کی درست روایت گری کی تشکیل کو روک دیتے تھے؛ لیکن اس بار صہیونیوں کی بربریت اور درندگی، عورتوں اور بچوں کےقتل عام کرنے ، ہسپتالوں اور اسکولوں پر حملے اور ساتھ ساتھ فلسطینی صحافیوں کی بے پناہ قربانیاں، کہ جن میں سے بہت سے صحافی پچھلے ایک سال میں شہید ہو گئے، ان سب کی وجہ سے صیہونی حکومت کو عالمی رائے عامہ میں اپنی روایت گری کو غالب کرنا ممکن نہ ہوسکا ۔ ظاہر ہے کہ عالمی رائے عامہ میں شناختی جنگ کا سب سے اہم حصہ بیانیے کی جنگ( روایت گری کی جنگ) جیتنا اور رائے عامہ کو حملہ آور کے ارادوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

اسی وجہ سے حالیہ جنگ کے دوران اسرائیلی حکومت نے سابقہ جنگوں کے برعکس اپنے جانی نقصان کو چھپانے کے حوالے سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا، عالمی سطح پر ترحم کے حصولیابی اور عالمی رائے عامہ کے احساسات کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے اس نے مسلسل اس کے مرنے والوں اور زخمیوں کے بارے میں خبریں شائع کیں۔ ، اور یہاں تک کہ انہوں نے حماس کے ہاتھوں درجنوں بچوں کو پھانسی دینے، یا عورتوں، بچوں اور شہریوں کے قتل جیسی جھوٹی رپورٹیں شائع کرنے کا سہارا بھی لیا۔ اس روایت سازی میں مغرب کا سیاسی اور میڈیا مین اسٹریم بھی اس جنگ کے دوران اسرائیل کی جھوٹی کہانی سازی کی مدد کو آیا اور حماس اور دیگر مزاحمتی جماعتوں کو لوگوں کے ذہنوں ميں ایک اور داعش کی شکل دینے کی کوشش کی۔ لیکن ان وسیع پروپیگنڈے کے باوجود غزہ کی جنگ میں پروپیگنڈے، سچائی کی جگہ نہ لے سکے؛ اور اسرائیلی حکومت کو روایت گری کی جنگ میں انتہائی سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

گزشتہ ایک سال کے دوران مغرب کے بڑے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں موجود بہت سے صحافیوں نے میڈیا کی طرف سے جنگ کی رپورٹنگ اور صیہونی حکومت کے جرائم کی سنسرشپ اور غیر جانبداری کے اصول کی عدم پاسداری پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی وسیع سفاکیت اور دہشتگردی نے عوامی ضمیر کو اتنامجروح کیا ، کہ اسرائیل اپنی جنگ کی روایت گری کو غالب روایت میں تبدیل نہ کر سکا۔ اس جنگ میں صیہونیوں کی انتہائی وحشیانہ کارروائیوں نے دنیا کے پانچوں براعظموں میں رائے عامہ کو اسرائیلی حکومت کے خلاف متحرک کیا اور گزشتہ ایک سال کے دوران امریکہ سے لے کر یورپ، ایشیا، افریقہ اور بحرالکاہل تک لاکھوں حریت پسند عوام سڑکوں پر نکل آئے؛ اور فلسطینی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان بربریت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ کی اوّل درجہ کی یونیورسٹیوں نے بھی گذشتہ ایک سال کے دوران فلسطین کی حمایت کی تحریک میں شمولیت اختیار کی؛ اور مغرب کے علمی حلقوں میں ایک بے مثال طلبہ انتفاضہ پیدا کیا۔

مظلوم فلسطینی قوم کی عالمی حمایت کا یہ عالم تھا کہ مغربی حکومتیں، مغرب میں فلسطینیوں کے حامیوں کے خلاف وسیع پابندیاں عائد کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ تاہم یہ پابندیاں غزہ کے عوام کے ساتھ عالمی یکجہتی کو روک نہیں سکیں۔ جنگ کے وسط میں "صیہونی حکومت کے قومی سلامتی کے مطالعاتی ادارے” نے حماس اور اس حکومت کے درمیان جنگ کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں شناختی جنگ میں حکومت کی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا: "بالآخر حماس نے ایک اورشناختی جنگ جیت لی۔ صیہونیوں کے خلاف ایک بار پھر، حماس اسرائیل کا مذاق اڑانے، اسے بے چین کرنے اورحیثیتی فوائد حاصل کرنے، یعنی رائے عامہ کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئی؛ اور یہ فلسطینی قوم اور اس کے حامیوں کے لیے اس کی استقامت اور جنگ کے جاری رہنے کے حوالے سے ایک اہم پیغام ہے”۔

صیہونی تحقیقی ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق عالمی رائے عامہ کی بھاری اکثریت نے اس جنگ میں فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی اور صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کی ہے، جس سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شناختی جنگ ميں صیہونی حکومت کو زبردست شکست ہوئی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ایک ممتاز نظریہ پرداز اور شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر "جان مرشیمر” نے بھی اس اہم موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاہے: "اس جنگ کے اسرائیل کے لیے برعکس نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ دنیا کی 95 فیصد رائے عامہ نے اس جنگ میں فلسطین کی حمایت کی ہے ؛ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو گئی ہے۔”

4۔ تحفظ کے احساس کی تباہی

بہت سے سیکورٹی ماہرین، تحفظ کے احساس کو خود سیکورٹی سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی حکومت اپنے گورننس فریم ورک کے اندر اپنے شہریوں کو تحفظ کا احساس نہیں دلا سکتی، تو اس کی قانونی حیثیت کی بنیادیں ہل جائیں گی اور تباہ ہو جائیں گی۔سنہ 1973 میں یوم کیپور جنگ کے بعد سے ہی، اسرائیلی حکومت نے اس مسئلے پر سخت محنت کی ہے کہ اس حکومت کی اعلی فوجی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کی وجہ سے اس کی سلامتی ناقابل تسخیر بن جائے۔ جب سنہ 1970 کی دہائی کے اواخر میں مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں صیہونی بستیاں قائم ہوئیں، تو مقبوضہ علاقوں کے داخلی ناقدین کا خیال تھا کہ صہیونی حکومت ان بستیوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکے گی۔ لیکن 1990 کی دہائی میں اور اس کے بعد صیہونی حکومتوں نے ہمیشہ اپنی فوجی اور انٹیلی جنس طاقت پر زور دیا اور آباد کاروں کے ذہنوں میں یہ غلط اعتماد پیدا کیا کہ ان کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے؛ اور یہ کہ اسرائیل سلامتی کے لحاظ سے ناقابل تسخیر یا (deterrence) کے مرحلے پر پہنچ چکا ہے۔

مزید کلی نظریہ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو سرزمین فلسطین میں صہیونی ریاست کا سنگ بنیاد ہی اس بنیاد پر رکھی گئی تھی کہ یہودی پوری دنیا میں غیر محفوظ ہیں اور وہ ہمیشہ یہود مخالف تحریکوں کے دباؤ اورسرکوبی کا شکار رہتے ہیں اور عدم تحفظ کےاحساس کی وجہ سے ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔ لہذا یہودیوں کو اپنی سلامتی کو یقینی بنانے، نیز یہودی ریاست کے سائے میں سلامتی کی خوشی کا تجربہ کرنے کے لیے مقبوضہ فلسطین میں ہجرت کرنی چاہیے۔ لیکن یہ بنیاد 7 اکتوبر (2023) کو الاقصیٰ طوفان آپریشن کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ اس لیے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ الاقصیٰ طوفان کی کارروائی سے صیہونی آباد کاروں کی سیکورٹی کی حیثیت پہلی بار ٹوٹ گئی ہے۔ صیہونی حکومت کے جنگی وزیر یوو گیلنٹ نے بھی جنگ کے پہلے مہینوں میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ” وال اسٹریٹ جرنل” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا :” اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے نے اسرائیلیوں کے احساس کو شدید صدمہ پہنچایا ہے اور یہ حملہ یہودیوں کے لیے سنہ 1945 سے اب تک کا سب سے بڑا خونی حملہ ہے”۔

صیہونی ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران مقبوضہ علاقوں سے تحفظ کے احساس کے فقدان کی وجہ سے معکوس نقل مکانی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔گذشتہ اگست میں صہیونی اخبار "یدیوت احرونوت” نے اس مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ بہت سے صیہونیوں کو مقبوضہ فلسطین میں اپنے قیام جاری رکھنے کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ اس سے قبل صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے بھی آباد کاروں سے کہا تھا کہ وہ مقبوضہ فلسطین کو نہ چھوڑیں۔

انہوں نے معکوس ہجرت (reverse migration)کے نتائج پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اس وقت "اسرائیل اپنے قیام کے بعد سے سب سے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ غزہ جنگ کے نتائج اور حکومت کی سکیوریٹی کی ناکامی اور 120 اسرائیلیوں کی یرغمالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، بینیٹ نے کہا تھا کہ ان تمام مشکلات اور مسائل کے با وجود، جو چیز مجھے سخت پریشان کرتی ہے، وہ اسرائیل کو چھوڑنے کی بات ہے۔” بعض اطلاعات کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً دس لاکھ صہیونی مقبوضہ فلسطین چھوڑ چکے ہیں۔

گزشتہ ایک سال کے دوران، دسیوں ہزار صہیونی ، جو مقبوضہ فلسطین کی شمال سرحد سے متصل بستیوں میں مقیم ہیں، حزب اللہ کے وسیع حملوں کی وجہ سے، ان علاقوں کو چھوڑ کر تل ابیب کے ہوٹلوں میں جا بسے ہیں۔ خود صہیونی حکام کے مطابق، اس عرصے کے دوران، حزب اللہ نے اپنے بے امان حملوں سے عملی طور پر ان بستیوں کو عصر حجر (پتھر کے زمانے) میں لوٹا دیا ہے۔ صہیونی حکومت کے تمام تر وعدوں کے باوجود، ان میں سے کوئی بھی صہیونی ، ان بستیوں میں واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہے؛ کیونکہ الاقصیٰ طوفانی کارروائی کے بعد ان کا احساس تحفظ ختم ہو چکا ہے اور وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ اگر وہ واپس گئے، تو انہیں ایسا خوفناک خواب کا سامنا کرنا پڑے گا، جو غزہ پٹی کے قریب آباد صہیونی لوگ سامنا کر رہےہیں۔ وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ واپس جانے کی صورت ميں وہ ، صبح ان قصبوں کی گلیوں میں حزب اللہ کے جوتوں کی آواز سے بیدار ہونے پڑھیں گے۔

صہیونیوں کی وحشت کا یہ عالم ہے کہ لبنان اور غزہ کے ساتھ عملی طور جنگ بندی ہونے کے بعد بھی اپنے علاقوں اور گھروں کی جانب واپس جانے سےخوفزدہ ہيں۔ ان کو اپنی حکومت کے وعدوں پر بھی کوئی اعتبار نہیں ، چونکہ صہیونی حکومت بہت کوشش کر رہی ہے کہ کسی بھی حالت ميں اپنے ان پناہ گزینوں کو اپنے شہروں اور بستیوں کی طرف لوٹا دیا جائے، جو لبنان کے سرحدی علاقوں کے قریب رہتےہیں۔ دوسری حانب لبنان اور غزہ کے مظلوم ،غیور اور با ایمان لوگ جنگ بندی کے اعلان کے فورا بعد ، فتح اور کامیابی کی خوشیوں کے ساتھ اپنے ان گھروں کی طرف لوٹ رہے ہیں، جو غاصب صہیونی حملوں ميں تباہ ہو چکے ہیں اور اکثر مکانات غیر قابل سکونت بن چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے