غزہ کا ’محفوظ علاقہ‘ جو اسلام آباد ایئرپورٹ سے بھی چھوٹا مگر لاکھوں فلسطینوں کی پناہ گاہ ہے
اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے تمام علاقوں میں زمینی کارروائی جاری ہے اور اس نے وہاں موجود 20 لاکھ عام شہریوں کو ’المواصی‘ کے ’انسانی بنیادوں پر بنائے گئے زون‘ میں جانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ زون صرف آٹھ اعشاریہ پانچ مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے جو اسلام آباد میں واقع بین الاقوامی ایئرپورٹ کے رقبے سے بھی کم ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ 13 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
’المواصی‘ دراصل بحیرہ روم سے متصل ایک پتلی سی پٹی ہے۔ یہاں بہت کم عمارتیں ہیں اور یہاں زیادہ تر ریت کے ٹیلے اور کاشتکاری کے لیے زمین نظر آتی ہے۔
ریم ابد ربی نے گذشتہ کئی ہفتے زمین پر سوتے ہوئے گزارے ہیں اور المواصی کے علاقے میں چار دیگر خاندانوں کے ساتھ ٹینٹ شیئر کیے ہیں۔
تاہم جب وہ یہاں پہنچی تھیں تو انھیں کوئی بنیادی سہولیات نظر نہیں آئیں۔ ریم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ المواصی ایک ویران علاقہ ہے جو ’انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔‘
عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈراس ادھانوم غبریسس نے کہا ہے کہ صحت پر آنے والے اثرات تباہ کن ہیں اور غزہ کا نظامِ صحت تباہی کے دہانے پر ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو کم سے کم رقبے میں جانے پر مجبور کرنے کے باعث ’بیماری کے پھیلاؤ کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے کہ غزہ میں ہر 750 افراد کے لیے ایک غسل خانہ اور 150 افراد کے لیے ایک ٹوائلٹ موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مطابق غزہ میں آغاز میں موجود 36 ہسپتالوں میں سے صرف 14 فعال ہیں جن میں سے دو شمال اور 12 جنوب میں ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں کی آدھی آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے کہا کہ غزہ پٹی میں ضروری سامان کا صرف ایک حصہ ہی داخل ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے 10 میں سے نو لوگوں کو روزانہ کا کھانا بھی میسر نہیں۔
مسٹر سکاؤ نے کہا کہ غزہ کے جنگی حالات نے رسد اور سامان کی ترسیل کو ’تقریباً ناممکن‘ بنا رکھا ہے۔
جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے حماس کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھنا ہوں گے۔
اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ نے ہفتے کے روز بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی بھی شہری کی موت اور درد تکلیف دہ ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہم غزہ پٹی کے اندر جتنا ممکن ہے پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سات اکتوبر سے غزہ کے اندر اور باہر نقل و حرکت پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سخت حفاظتی باڑ کو توڑ دیا تھا اور ان کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ انھوں نے 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دیں اور علاقے پر فضائی حملے شروع کر دیے اور غزہ کے باشندوں کے لیے ضروری سامان کی رسد اور امداد کی ترسیل کو بہت حد تک روک دیا۔
حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنی انتقامی مہم میں غزہ کے 17,700 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں 7,000 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں
صرف رفح سرحد کھلی ہے
مصر کی سرحد سے متصل صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے۔
رواں ہفتے اسرائیل نے امدادی لاریوں کے معائنے کے لیے اگلے چند دنوں میں اسرائیل سے غزہ کے لیے کریم شلوم کراسنگ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد ٹرک غزہ میں داخل ہونے کے لیے رفح جائیں گے۔
مسٹر سکاؤ نے کہا کہ وہ کسی بھی طرح غزہ میں موجود ‘خوف، افراتفری اور مایوسی’ کے لیے تیار نہیں تھے جن کا انھیں اور ان کی ٹیم کو رواں ہفتے غزہ کے دورے کے دوران سابقہ پڑا۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے ‘گوداموں میں افراتفری، تقسیم کے مقامات پر ہزاروں مایوس بھوکے لوگوں کے ہجوم، سپر مارکیٹوں کی خالی الماریاں اور خستہ حال باتھ رومز اور پناہ گاہوں میں لوگوں کی گنجائش سے زیادہ بھیڑ’ دیکھی۔
گذشتہ ماہ بین الاقوامی دباؤ اور سات روزہ عارضی جنگ بندی سے غزہ پٹی میں کچھ اشد ضروری امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت ملی تھی لیکن ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کا اصرار ہے کہ غزہ پٹی کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب دوسرے سرحدی کراسنگ کو کھولے جانے کی ضرورت ہے۔
سکاؤ کا کہنا ہے کہ بعض جگہ تو ہر دس میں سے نو نو افراد ’رات دن بغیر کسی کھانے کے‘ گزار رہے ہیں۔
غزہ کے جنوب میں واقع خان یونس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں کے دو محاذوں پر گھرے شہر کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔
شہر کی واحد باقی رہ جانے والی صحت کی سہولت ناصر ہسپتال میں پلاسٹک سرجری اور برنز یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر احمد مغرابی خوراک کی کمی کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رو پڑے۔
انھوں نے کہا: ‘میری تین سال کی ایک بیٹی ہے، وہ مٹھائی، سیب اور پھل کے لیے ضد کرتی رہتی ہے۔ میں اسے کچھ نہیں دے سکتا۔ میں خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہوں۔
‘یہاں کافی کھانا نہیں ہے، بلکہ کھانا ہی نہیں ہے۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ صرف چاول ہی ہے؟ ہم دن بھر میں ایک بار، صرف ایک بار کھاتے ہیں۔’
خان یونس کے حالات ناگفتہ بہ
خان یونس حالیہ دنوں میں شدید فضائی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور وہاں کے ناصر ہسپتال کے باس نے کہا کہ ان کی ٹیم کا ہسپتال پہنچنے والے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد پر ‘کنٹرول نہیں رہا ہے’۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما خان یونس میں ممکنہ طور پر سرنگوں کے زیر زمین نیٹ ورک میں چھپے ہوئے ہیں، اور یہ کہ وہ گروپ کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے گھر گھر اور ‘کونے کونے’ میں لڑ رہا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے سنیچر کے روز غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد امریکہ پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 13 ممالک نے جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور امریکہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔
فلسطینی اتھارٹی کے رہنما مسٹر عباس نے کہا کہ وہ ’(اسرائیلی) قابض افواج کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے خون بہائے جانے کا ذمہ دار واشنگٹن کو ٹھہراتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رابرٹ وڈ نے ویٹو کا دفاع کیا اور کہا کہ قرارداد ایک ‘غیر پائیدار جنگ بندی’ کا مطالبہ کر رہی ہے جس سے ‘حماس اس قابل ہو جائے گا کہ وہ 7 اکتوبر کو کیے جانے والے اقدامات کو دہرا سکے۔’
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ وہ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ’درست موقف‘ کو سراہتے ہیں۔
سات دن کی عارضی جنگ بندی ابھی ایک ہفتہ قبل ختم ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے تحت حماس نے اسرائیلی جیلوں میں قید 180 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 78 مغویوں کو رہا کیا تھا۔
غزہ میں حماس کے ہاتھوں میں اب بھی 100 سے زائد لوگ یرغمال ہیں۔
’غزہ میں انسانی حقوق کے علاقے میں کوئی انسانی حقوق میسّر نہیں‘
اسرائیلی فوج نے بار بار غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ایسے علاقے جسے وہ ’یومینیٹیرین زون‘ کہہ رہے ہیں وہاں منتقل ہو جائیںآ خیال رہے کہ یہ علاقہ لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے بھی چھوٹا ہے۔
المواصی بحیرہ روم کے کنارے زمین کی ایک تنگ پٹی ہے۔ اس میں چند عمارتیں ہیں اور یہ زیادہ تر ریتیلے ٹیلوں اور زرعی زمین پر مشتمل ہے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی طرف سے نامزد کیا گیا محفوظ علاقہ صرف 8.5 مربع کلومیٹر (3.3 مربع میل) ہے۔
ایک پناہ گزین ریم عبد ربو اس علاقے میں کئی ہفتوں سے زمین پر سو رہی ہیں اور چار دیگر خاندانوں کے ساتھ ایک ہی ٹینٹ میں رہ رہی ہیں۔
انھیں لگا کہ یہ جگہ بمباری اور لڑائی سے محفوظ ہو گی لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں تھیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پانی ایک دن آتا ہے اور دس دن نہیں آتا، باتھ روم میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اور بجلی کی بھی یہی صورتحال ہے۔
اسرائیلی فوج نے کم از کم 15 دفعہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو المواصی جانے کو کہا ہےآ آخری دفعہ انھوں نے 2 دسمبر کو یہ اعلان کیا تھا۔
انٹرنیٹ کے محدود یا نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو غزہ کے دیگر علاقوں میں محفوظ جگہیں ڈھونڈنا مشکل ہوچکا ہے۔
تاہم المواصی کے متعلق اسرائیلی فوج کی ہدایات بھی کئی دفعہ تبدیل ہوئی ہیں۔
عام شہریوں کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے پیغامات کی وجہ سے محفوظ علاقوں کی نشاندہی کرنا ان کے لیے ایک مشکل بن گئی ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہر پوسٹ میں ایک نقشہ ہے جس میں المواصی کے اندر ایک علاقے میں جانے کو کہا جاتا ہے۔
لیکن مختلف اوقات میں المواصی کے اندر مختلف مقامات کو اسرائیل نے محفوظ مقام قرار دیا ہے۔
مونا الاستال ایک ڈاکٹر ہیں جب ان کے پڑوسی کا گھر بمباری سے تباہ ہو گیا تھا انھیں مجبوراً خان یونس چھوڑ کر المواصی آنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں کہ بمباری کی آوازوں کی وجہ سے وہ پوری رات جاگتی رہتی ہیں۔
مونا بھی اس علاقے میں پانی بجلی اور سہولیات کی عدم موجودگی کا بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ٹینٹ اور دیگر اشیائے ضروریہ کے لیے انھیں 300 ڈالر دینے پڑے۔
مونا کہتی ہیں انھوں نے لوگوں کو اقوام متحدہ کے سٹورہاؤس میں زبردستی گھستے ہوئے بھی دیکھا ہے کیونکہ وہ ’بہت بھوکے تھے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔‘
مونا مزید کہتی ہیں ’ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے لیے یہاں خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘