سوئٹزرلینڈ کے دورے پر آئے اسرائیلی صدر کےخلاف نسل کشی کے الزامات کا جائزہ
سوئٹزرلینڈ کے پراسیکیوٹرز نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے (سوئٹزرلینڈ کے دورے پر آئے ہوئے) صدر آئزک ہرزوگ کے خلاف متعدد شکایات کا جائزہ لے رہے ہیں، کیونکہ اطلاعات کے مطابق این جی اوز ان پر غزہ میں نسل کشی پر اکسانے کا الزام لگا رہی ہیں۔رپورٹ کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے اٹارنی جنرل کے دفتر (او اے جی) نے تصدیق کی ہے کہ اسے آئزک ہرزوگ کے خلاف ’متعدد مجرمانہ شکایات‘ موصول ہوئی ہیں، جو اس ہفتے سوئٹزرلینڈ کے ریزورٹ ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں موجود تھے۔او اے جی نے اے ایف پی کو ایک ای میل میں کہا ہے کہ مجرمانہ شکایات کا اب معمول کے طریقہ کار کے مطابق جائزہ لیا جا رہا ہے، دفتر سوئٹزرلینڈ کی وزارت خارجہ کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ ’متعلقہ شخص کے استثنیٰ‘ کا جائزہ لیا جاسکے۔دفتر نے دائر کردہ مخصوص شکایات کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
معتبر سوئس خبر رساں ایجنسی ’اے ٹی ایس‘ نے خبر دی ہے کہ ان میں سے ایک شکایت نسل کشی کے خلاف ایک این جی او (لیگل ایکشن اگینسٹ جینوسائیڈ) کی جانب سے آئی ہے۔خبر کے مطابق این جی او آئزک ہرزوگ کے خلاف نسل کشی پر اکسانے اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔شکایت میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے غزہ میں نسل کشی اور جنگی جرائم کے نظریاتی جواز میں فعال کردار ادا کیا، شہری آبادی اور عسکریت پسندوں کے درمیان فرق کو مٹا دیا۔اسرائیلی حکام جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کی بار بار تردید کرتے رہے ہیں، اور حماس پر شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔
اسرائیلی صدر نے منگل کو ڈیووس میں خطاب کیا اور بدھ کی صبح ملاقاتیں کیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ اب بھی سوئٹزرلینڈ میں ہیں یا نہیں۔اے ٹی ایس کی رپورٹ کے مطابق ایک سال قبل جب انہوں نے ڈیووس اجلاس میں شرکت کی تھی، تو ان کے خلاف شکایات بھی درج کرائی گئی تھیں، لیکن او اے جی نے تحقیقات شروع کرنے سے گریز کیا تھا۔اے ایف پی کے مطابق غزہ میں جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی، جو اسرائیل پر تاریخ کا سب سے مہلک حملہ تھا، جس میں ایک ہزار 210 افراد ہلاک ہوئے تھے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل نے غزہ کے زیادہ تر حصے کو ملیا میٹ کر دیا اور حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق 47 ہزار 100 سے زائد افراد شہید، جب کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہوئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔