القادر ٹرسٹ کیس“: چند اہم قانونی سوالات

WhatsApp-Image-2025-01-16-at-8.07.09-AM.jpeg

احتساب عدالت نے بالآخر عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سزائیں اس لیے دی گئی ہیں کہ ان کے خلاف”کرپشن“ اور ”کرپٹ پریکٹسز“ کا جرم ثابت ہوا ہے۔ اس فیصلے کے مختلف پہلوؤں پر کل سے زبردست بحث جاری ہے۔ حسبِ معمول ایک فریق اسے انصاف کی جیت اور دوسرا فریق اسے انصاف کی موت قرار دے رہا ہے۔ کسی کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ جب پیسے عمران خان کی”جیب“ میں نہیں، بلکہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں گئے ہیں، اور جب زمین عمران خان یا ان کی اہلیہ کے نام نہیں، بلکہ ٹرسٹ کو، اور یونیورسٹی کی تعمیر کےلیے، دی گئی ہے، تو پھر یہ کرپشن کیسے ہوئی اور اس پر سزا کیوں دی گئی؟ کسی کو فیصلہ سنانے والے جج پر، تو کسی کو مقدمہ چلانے کے طریقِ کار پر اعتراض ہے اور کچھ لوگ بالخصوص اس فیصلے کی ٹائمنگ کی بنا پر اس پر تنقید کررہے ہیں۔

دوسری طرف جو لوگ اسے درست فیصلہ مان کی اس کی تحسین کررہے ہیں، وہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ برطانیہ سے وصول کی گئی رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ڈالنے کےلیے کابینہ کی منظوری کےلیے سربمہر لفافہ کیوں پیش کیا گیا اور معاہدہ کسی کو دکھایا کیوں نہیں گیا؟ کسی کو اس پر اعتراض ہے کہ کابینہ کی منظوری سے بھی پہلے رقم کیوں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ڈالی گئی۔ اس ساری بحث میں لگتا یہ ہے کہ کئی اہم قانونی سوالات نظر انداز ہوگئے ہیں، یا انھیں وہ اہمیت نہیں دی جارہی جو انھیں دینی چاہیے اور اس وجہ سے اس مقدمے اور اس فیصلے کی درست نوعیت اور اس کے قانونی اثرات پوری طرح واضح نہیں ہوپارہے۔ یہاں میں اس معاملے کے ایسے چند پہلوؤں کی نشاندہی اور وضاحت کروں گا۔

اس کیس کا بحریہ ٹاؤن کے ساتھ تعلق

یہ کیس القادر ٹرسٹ سے شروع نہیں ہوتا، بلکہ اصل میں یہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف کیس سے نکلا ہوا معاملہ اور اسی کا تسلسل ہے۔بحریہ ٹاؤن کا معاملہ ویسے تو شروع بہت پیچھے سے ہوتا ہے لیکن موجودہ کیس سے تعلق کےلیے سپریم کورٹ کے اس حکمنامے سے بات شروع کی جاسکتی ہے جو اس نے 21 مارچ 2019ء کو جاری کیا تھا۔ اس وقت بحریہ ٹاؤن اور ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا تنازعہ چل رہا تھا۔ فریقین کے درمیان سمجھوتہ طے ہونے پر سپریم کورٹ نے ”رضامندی پر مبنی حکمنامہ“ جاری کیا اور قرار دیا کہ بحریہ ٹاؤن کو ضلع ملیر میں 16 ہزار 8 سو 96 ایکٹر زمین دی جائے گی اور بحریہ ٹاؤن 4 سو 60 ارب روپے قسطوں میں سات سال کی مدت میں ادا کرے گا۔ یہ مدت 31 اگست 2026ء کو ختم ہونی تھی۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ دو مسلسل قسطیں ادا نہ کرنے کی صورت میں اسے ڈیفالٹ سمجھا جائے گا اور پھر بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس حکمنامے کے نتیجے میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف نیب کی کارروائی روک دی گئی۔

بحریہ ٹاؤن نے چند قسطیں ادا کیں، لیکن پھر جلد ہی یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ طویل وقفے کے بعد اکتوبر 2023ء میں جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے (جس کے دیگر دو ارکان جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ تھے) اس کیس کو پھر سے سننا شروع کیا، تو بحریہ ٹاؤن کے وکیل جناب سلمان بٹ نے، جو اٹارنی جنرل بھی رہ چکے تھے، عذر یہ پیش کیا کہ بحریہ ٹاؤن کو 16 ہزار 8 سو 96 ایکٹر زمین دی جانی تھی، لیکن اسے اا ہزار 7 سو 47 ایکڑ زمین دی گئی، اس لیے اس نے قسطوں کی ادائیگی روک دی! انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کے اس وقت کے وکیل جناب علی ظفر نے سپریم کورٹ میں 14 دسمبر 2019ء کو ایک درخواست بھی جمع کرائی جس میں اس معاملے کو وقتی طور پر روک دینے کی استدعا کی گئی تھی لیکن وہ درخواست 4 سال تک سماعت کےلیے مقرر ہی نہیں کی گئی! (اس معاملے کی درست نوعیت سمجھنے کےلیے یہ تاریخیں بہت اہم ہیں۔)

اب یہاں رک کر چند سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے:

دو فریقوں کے درمیان لین دین کے معاملے میں سپریم کورٹ کیسے بیچ میں آگئی؟

پھر اگر سپریم کورٹ نے بیچ میں آنا بھی تھا، تو اس نے قسطیں جمع کرانے کےلیے اپنا اکاؤنٹ کیوں دیا؟
سپریم کورٹ نے اس معاملے کی نگرانی کےلیے ”نگرانی بنچ“ آئین یا قانون کی کس شق کے تحت بنایا؟
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ایک کمیشن بنانے کا بھی حکم دیا تھا، اور سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک جج کو اس کی سربراہی سونپنے کےلیے کہا تھا، وہ کمیشن کیوں نہیں بن سکا؟
جب بحریہ ٹاؤن نے قسطیں جمع کرانا روک دیا، تو سپریم کورٹ نے اس پر آنکھیں کیوں بند کیں، اور بالخصوص وہ درخواست جو بحریہ ٹاؤن نے جناب علی ظفر کے ذریعے جمع کرائی تھی، اسے سماعت کےلیے کیوں مقرر نہیں کیا؟ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور سندھ کی حکومت کیوں ستو پی کر سو رہیں؟ ان سوالات کی طرف واپس آئیں گے، لیکن ایک قدم پیچھے جا کر ایک اور مسئلے کے متعلق بات کرنا ضروری ہوگیا ہے۔

اثاثے برآمد کرنے کا شعبہ

عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے چند مہینے بعد حکومت نے یہ شعبہ 6 نومبر 2018ء کو کابینہ ڈویژن کے ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے تخلیق کیا اور مرزا شہزاد اکبر کو اس کا سربراہ بنایا ۔ اس شعبے کی قانونی حیثیت بھی مشتبہ تھی کیونکہ اس کی تخلیق کسی قانون کے ذریعے نہیں کی گئی، بلکہ قواعدِ نظمِ حکومت (Rules of Business) کے تحت کی گئی۔ یہی شعبہ تھا جس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس تیار کرنے کا کام کیا۔ مرزا شہزاد اکبر اور ’نفیس‘ وزیرِ قانون فروغ نسیم اس ریفرنس کے شریک مصنّف تھے، لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ ان دونوں کے پیچھے جنرل فیض حمید اور جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جنھیں فیض آباد دھرنے کے متعلق قاضی صاحب کے فیصلے سے شدید تکلیف ہوئی تھی۔ بہرحال جب قاضی صاحب کی درخواست سپریم کورٹ نے سنی تو اکثریتی فیصلے میں جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ ماننے کے باوجود کہ اس شعبے کے قیام اور کام پر کئی سنجیدہ سوالات قائم ہیں، اسے غیر قانونی قرار دینے سے گریز کیا

لیکن جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں تفصیلی بحث کے بعد اس شعبے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مرزا شہزاد اکبر اور اس شعبے کے دیگر ارکان کی تنخواہوں اور اختیارات پر بھی سخت گرفت کی (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بنام صدرِ پاکستان، پی ایل ڈی 2021 سپریم کورٹ 1)۔جسٹس شاہ نے قرار دیا کہ اس شعبے کی تخلیق کےلیے حکومت نے جن قواعد کا حوالہ دیا، ان کے تحت صرف کسی پہلے سے موجود شعبے کو کسی ڈویژن کے ساتھ منسلک کرسکتی ہے، لیکن نیا شعبہ تخلیق کرنے کےلیے قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے مزید قرار دیا کہ اس شعبے کا کام اگر صرف رابطہ کاری کی حد تک ہوتا، تو پھر اسے جائز مانا جاتا

لیکن درج ذیل امور کی بنا پر اسے صرف رابطہ کاری تک محدود نہیں سمجھا جاسکتا:
– نوٹی فیکیشن کے مطابق اسے ایک مستقل اور الگ شعبے کے طور پر تخلیق کیا گیا ہے؛
– اس شعبے کے فرائض و اختیارات میں رابطہ کاری کا کوئی ذکر نہیں ہے؛
– فرائض و اختیارات اس شعبے کو دیے گئے ہیں، نہ کہ اس کے ارکان کو؛ اور

اس شعبے کو اتنے وسیع اور اہم اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ قانون کی رو سے متعلقہ دیگر شعبوں کو دیے گئے اختیارات سے بھی متجاوز ہیں؛ مثلاً ملک کے اندر اور باہر کہیں سے بھی معلومات حاصل کرنے کےلیے یہ شعبہ حکومت کی کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی سے معاونت طلب کرسکتی ہے؛ اسے لوگوں کے اکاؤنٹ، کمپنیوں کے ریکارڈ، ٹیکسوں کی تفصیلات، بیرونِ ملک سفر کے ریکارڈ، نادرا کے ریکارڈ وغیرہ سب تک رسائی حاصل ہے۔ جسٹس شاہ نے نتیجہ یہ نکالا کہ اس شعبے کا قیام قطعی طور پر بغیر کسی قانونی جواز کے ہے اور اس لیے ”اس کے چیئرمین اور دیگر ارکان کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔“ جسٹس شاہ کا یہ نوٹ 4 نومبر 2020ء کو لکھا گیا۔ اس سے چند مہینے بعد نظرِ ثانی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے 26 اپریل 2021ء کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بنچ نے 4 کے مقابلے میں 6 کی اکثریت سے قاضی صاحب کے خلاف پورا کیس ہی ختم کردیا (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بنام صدرِ پاکستان، پی ایل ڈی 2022 سپریم کورٹ 119)۔ یہ تفصیل سمجھنی اس لیے ضروری تھی کہ بحریہ ٹاؤن سے برطانیہ میں موصول ہونے والی رقم اور اس کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں اس رقم کی سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقلی میں اس شعبے اور اس کے روحِ رواں مرزا شہزاد اکبر کا بہت اہم کردار تھا۔ اب بات کرتے ہیں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ اور دیگر متعلقہ امور کی۔

بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں کتنی زمین تھی؟

بحریہ ٹاؤن کا موقف یہ تھا کہ اسے جتنی زمین دی جانی تھی، اس سے 5 ہزار ایکڑ کم زمین اسے دی گئی۔ سپریم کورٹ نے نومبر 2023ء میں زمین کا سروے کرکے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ بحریہ ٹاؤن کو جتنی زمین دی جانی تھی، اس سے 4 ہزار ایکڑ زیادہ زمین اس کے قبضے میں موجود ہے! سپریم کورٹ کے سامنے بحریہ ٹاؤن کی ایسی دستاویز (متفرق درخواست نمبر 1870 بابت 2019، مؤرخہ 2 مارچ 2019ء) بھی رکھی گئی جس سے معلوم ہوا کہ 2019ء میں سپریم کورٹ کے حکمنامے سے قبل ہی بحریہ ٹاؤن نے تسلیم کیا تھا کہ جتنی زمین اسے دی جانی تھی، وہ اس کے قبضے میں آچکی ہے۔ اس کے بعد اس عذر کی کیا حیثیت باقی رہی؟ یہ بھی ظاہر ہے کہ 4 ہزار ایکڑ اضافی زمین پر قبضہ متعلقہ حکام کی رضامندی اور شراکت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔

کتنی رقم سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی؟

جب اکتوبر 2023ء میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس کی پھر سے سماعت شروع کی، تو سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ رضامندی پر مبنی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے کل 460 ارب روپے جمع کرانے تھے، لیکن اس نے صرف تقریباً 62 ارب روپے ہی جمع کرائے ہیں۔ رضامندی پر مبنی فیصلے کی رو سے بحریہ ٹاؤن پر لازم تھا کہ یکم ستمبر 2019ء سے اس نے ڈھائی ارب روپے کی ماہانہ 48 قسطیں جمع کرانی تھی، اور یکم ستمبر 2023ء سے پھر اس نے 4 فی صد مارک اپ کے ساتھ 36 ماہانہ قسطیں جمع کرانی تھیں۔ تاہم ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار اکاؤنٹ میں ڈھائی ارب روپے کی قسط آخری دفعہ 31 اکتوبر 2019ء کو جمع کرائی گئی، اس کے بعد نومبر 2019ء سے اکتوبر 2020ء تک چھوٹی موٹی رقوم جمع کرائی گئیں کل ملا کر 17 کروڑ روپے سے کچھ زیادہ، اور اس کے بعد ادائیگی روک دی گئی۔

مکرّر عرض ہے کہ یہ تاریخیں یاد رکھنی ضروری ہیں کیونکہ القادر ٹرسٹ کیس کے ساتھ ان تاریخوں کا بہت گہرا تعلق ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اکتوبر 2023ء تک بحریہ ٹاؤن نے پونے دو کھرب روپے جمع کرانے تھے، لیکن اس کی جانب سے کل ملا کر تقریباً 24 ارب روپے ہی جمع کرائے گئے ہیں۔ ان میں بھی تقریباً ایک ارب روپے ان لوگوں نے جمع کرائے ہیں جنھیں بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ الاٹ کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ رضامندی پر مبنی فیصلے میں تصریح کی گئی تھی کہ دو مسلسل قسطیں جمع نہ کرانے، یا کل تین قسطیں جمع نہ کرانے پر اسے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ڈیفالٹ تصور کیا جائے گا اور اس صورت میں اس پر باقی تمام رقم کی فوری ادائیگی واجب ہوجائے گی۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار اکاؤنٹ میں بیرونِ ملک سے جمع کرائی گئی رقوم

اکتوبر 2023ء میں سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں بیرونِ ملک سے بھی کل 132 ملین برطانوی پاؤنڈ اور 44 ملین امریکی ڈالر جمع کرائے گئے۔جس وقت یہ رقم جمع کرائی گئی، اس وقت یہ تقریباً 35 ارب روپے بنتے تھے۔ ان میں ملک ریاض، ان کی اہلیہ، بیٹی اور بیٹے کے علاوہ کچھ بینک اور کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ رضامندی پر مبنی فیصلے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ یہ افراد، بینک یا کمپنیاں بھی رقوم جمع کرائی جاسکتی ہیں یا بیرونِ ملک سے بھی رقم جمع کرائی جاسکے گی۔ اس لیے یہ رقوم جمع کرانے والوں کو بھی سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کیے۔ ان میں صرف ایک بینک – مشرق بینک – نے ہی سپریم کورٹ میں جواب (متفرق درخواست نمبر 9765 بابت 2023ء) جمع کرایا جس سے معلوم ہوا کہ اس نے ملک ریاض کی اہلیہ مبشرہ ملک کے اکاؤنٹ سے تقریباً 20 کروڑ برطانوی پاؤنڈ سپریم کورٹ کےرجسٹرار کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے ہیں۔ سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ برطانیہ میں ”جرائم کے متعلق قومی ایجنسی“ (National Crimes Agency/NCA) نے ان کے خلاف اکاؤنٹ منجمد کرنے کا حکمنامہ (Account Freezing Order/AFO) حاصل کیا تھا اور اس بنا پر مبشرہ ملک نے مشرق بینک کو ہدایت کی کہ اس کے اکاؤنٹ میں موجود منجمد شدہ رقم کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا جائے۔ یہاں سے یہ معاملہ عمران خان حکومت کے بنائے گئے ”اثاثے برآمد کرنے کے شعبے“ اور پھر ”القادر ٹرسٹ“ کے ساتھ جڑ گیا۔

سپریم کورٹ کےرجسٹرار کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرائی کیسے جاسکتی تھی؟

اکتوبر-نومبر 2023ء میں بحریہ ٹاؤن کے کیس کی سماعت کے دوران میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک اہم سوال یہ آیا کہ آخر بحریہ ٹاؤن کی قسطیں جمع کرانے کےلیے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا اکاؤنٹ کیوں استعمال کیا گیا؟ اس ضمن میں آئین کی دفعہ 78، ذیلی دفعہ 2، کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں طے کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رقوم وفاق کے پبلک اکاؤنٹس میں منتقل کی جائے گی۔ یہ سوال ایک اور مقدمے میں بھی سپریم کورٹ کے سامنے آیا جس میں مسئلہ یہ تھا کہ دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کےلیے جو رقوم جمع کرائی گئیں ہیں، کیا سپریم کورٹ انھیں اپنے اکاؤنٹ میں رکھ سکتی ہے؟ یاد ہوگا کہ اس مقصد کےلیے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک خصوصی اکاؤنٹ بھی کھلوایا تھا۔ اب 9 اکتوبر 2024ء میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ مذکورہ اکاؤنٹ میں موجودہ تمام رقم (تقریباً ساڑھے 23 ارب روپے) وفاق کے پبلک اکاؤنٹس میں منتقل کی جائے اور یہ اکاؤنٹ بند کردیا جائے۔ بحریہ ٹاؤن کے کیس میں بھی سپریم کورٹ نے 23 نومبر 2023ء کے حکمنامے میں یہی طے کیا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی رقوم سندھ کے عوام کی ہیں اور اس لیے انھیں حکومتِ سندھ کے ’نان-فوڈ اکاؤنٹ نمبر1‘ میں منتقل کیا جائے۔ سپریم کورٹ کےلیے زیادہ اہم مسئلہ یہ تھا کہ بیرونِ ملک سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں رقوم جمع کرائی گئی ہیں، اور اس میں بھی زیادہ سنگین مسئلہ اس رقم کا تھا جو برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی کی کارروائی کے بعد وہاں سے اس اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئیں۔

برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی کا کردار

سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ برطانیہ میں Crimes and Court Act 2013 کے تحت اس ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور اس کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ Proceeds of Crimes Act 2002 کے تحت کارروائی کرسکتی ہے۔ اس دونوں قوانین اور اس ایجنسی کا تعلق جرائم سے ہے، جیسا کہ ان کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ نے اس امر کو شرمندگی کا باعث سمجھا کہ اس ایجنسی نے مذکورہ قوانین کے تحت کارروائی کرتے ہوئے کچھ رقم منجمد کی تو اسے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں ڈالا گیا۔ یہ رقم اس اکاؤنٹ میں جمع کرانے کا مقصد یہ تھا کہ اسے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے واجب الادا قسطوں میں شمار کیا جائے۔ اس کےلیے سپریم کورٹ نے اس ”پطرس سے چھین کر پولس کو ادا کرنے“ کا انگریزی محاورہ استعمال کیا جو بالکل برمحل اس لیے تھا کہ ایک ملک کی ایجنسی نے بعض افراد و اشخاص کی کچھ مشتبہ رقم پکڑی تو اسے دوسرے ملک کی حکومت نے انھی افراد و اشخاص کے ذمے واجب الادا رقم کی ادائیگی میں شمار کرلیا، اور طرفہ تماشا یہ کہ اس مقصد کےلیے ملک کی اعلی ترین عدالت کا کندھا اور اس کے رجسٹرار کا اکاؤنٹ استعمال کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 23 نومبر 2023ء کو حکم دیا کہ یہ رقم سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ سے حکومتِ پاکستان کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔

نیب کا ریفرنس

اس تفصیل کے بعد اس معاملے میں عمران خان و دیگر کے خلاف نیب کے ریفرنس کی حقیقت کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ اس ریفرنس کی بنیاد یہ امر ہے کہ عمران خان کی حکومت کے قائم کردہ ”اثاثے برآمد کرنے کے شعبے“ کے سربراہ و دیگر ارکان، بالخصوص اس کے قانونی مشیر ضیاء المصطفیٰ نسیم، کی مشاورت اور معاونت سے یہ معاملہ طے پایا کہ ملک ریاض وغیرہ کی جو رقم برطانیہ میں نیشنل کرائمز ایجنسی نے پکڑ کر منجمد کی تھی اور اسے حکومتِ پاکستان کو منتقل ہونا تھا، وہ رقم سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں منتقل کردی گئی اور اسے ملک ریاض وغیرہ کے ذمے واجب الادا رقم کی ادائیگی میں شمار کیا گیا۔ اس منتقلی کے تقریباً 2 سال بعد ملک ریاض و بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے قیام کےلیے کئی سو کنال زمین القادر ٹرسٹ کے نام منتقل کی گئی جس کے ٹرسٹیز عمران خان اور ان کی اہلیہ تھیں، اور اسی طرح کچھ زمین ان کی ’فرنٹ وومن‘ فرحت شہزادی کو منتقل کی گئی۔ اس سے استغاثہ نے یہ کیس بنایا کہ یہ اس کام کا عوض تھا جو عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے ملک ریاض و دیگر کےلیے کیا۔

اس ریفرنس پر کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔

کیا برطانیہ میں پکڑی گئی رقم جرم کی آمدنی تھی؟

یہ بات تو درست ہے کہ برطانیہ میں رقم پکڑنے اور منجمد کرنے کا کام نیشنل کرائمز ایجنسی نے کیا اور یہ کام اس نے جرم کی آمدنی سے متعلق قانون کے تحت ہی کیا، لیکن اس معاملے میں متعلقہ قانون، ایجنسی کی کارروائی اور بالخصوص ملک ریاض کی ویزا منسوخی کے متعلق لندن میں کورٹ آف اپیلز کے فیصلے کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس کا جرم کی آمدنی ہونا ثابت ہوا ہوتا، تو بات صرف رقم منجمد کرنے تک محدود نہ ہوتی، نہ ہی اس منجمد رقم کی مشروط آزادی کا معاہدہ طے پاتا، بلکہ اس کے ساتھ پھر ملک ریاض وغیرہ کے متعلق فوجداری کارروائی بھی ہوتی جو ان کی سزا پر منتِج ہوتی۔ دراصل مالی کرپشن اور اس طرح کے دیگر امور میں، جنھیں وھائٹ کالر کرائم کہا جاتا ہے، جرم ثابت کرکے سزا دینا بہت مشکل کام ہوتا ہے، اس لیے کئی ممالک میں سزا کے بجاے رقم کی بازیابی اور واپسی کے پہلو پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور جب استغاثہ یہ دیکھ لے کہ جرم ثابت کرنے کے بجاے رقم کی بازیابی تک محدود رہنا کافی ہے، اور اسی طرح جب ملزم یہ دیکھ لے کہ رقم دے چکنے کے بعد وہ سزا سے بچ جائے گا، تو دونوں کے درمیان ایک سمجھوتہ طے پاتا ہے۔

یہاں تک معاملہ ’دیوانی‘ سمجھا جاتا ہے، نہ کہ ’فوجداری‘۔ ملک ریاض کے متعلق برطانیہ میں کارروائی بھی اسی نوعیت کی تھی۔ اس میں سزا تک بات نہیں پہنچی، نہ ہی جرم ثابت کیا گیا، بلکہ اس سے قبل سمجھوتہ طے پایا جس کے بعد نیشنل کرائمز ایجنسی نے ان کی منجمد شدہ رقم مشروط طور پر آزاد کردی۔ یہ بھی واضح رہے کہ ایک سمجھوتہ وہ ہوتا ہے جو اعترافِ جرم کی نوعیت کا ہوتا ہے اور جس کے بعد خواہ سزا نہ ہو، لیکن جرم ثابت ہوچکا ہوتا ہے۔ ملک ریاض اور نیشنل کرائمز ایجنسی کے درمیان سمجھوتے کی نوعیت یہ بھی نہیں تھی، یعنی اسے اعترافِ جرم نہیں مانا گیا، بلکہ اس کے نتیجے میں صرف یہ طے پایا کہ یہ رقم مشتبہ ہے، اس لیے اسے حکومتِ پاکستان کو واپس کیا جائے اور پھر پاکستان میں اس کے متعلق قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ ’واپس کیا جائے‘ کے الفاظ پر غور کریں۔ یہ رقم پاکستان سے ہی گئی تھی اور برطانیہ کے قانونی نظام نے اس کا برطانیہ پہنچنا مشتبہ قرار دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ رقم پاکستان سے کب اور کیسے گئی؟ اس سوال کی طرف واپس آئیں گے۔

یہ مشتبہ رقم کس کی ملکیت تھی؟

جب یہ طے پایا کہ اس رقم کا جرم کی آمدنی ہونا ابھی ثابت نہیں ہوا تھااور ابھی اسے صرف مشتبہ سمجھا گیا، تو یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ابھی اس پر ملک ریاض وغیرہ کی ملکیت کو کالعدم نہیں کیا گیا اور جو معاہدہ طے پایا اس میں بھی اس وجہ سے یہ قرار دیا گیا کہ یہ اس 460 ارب روپے کے جرمانے کی ادائیگی میں دی جائے گی جو پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک ریاض پر (اس کی رضامندی سے) عائد کیا تھا۔ گویا ایک سمجھوتہ ملک ریاض نے پاکستان میں کیا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے انھیں 460 ارب روپے ادا کرنے کا حکم دیا (جس کی تفصیل اوپر دی گئی) اور دوسرا سمجھوتہ ملک ریاض اور برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی کے درمیان ہوا جس کے نتیجے میں انھیں 190 ملین پاؤنڈ حکومتِ پاکستان کو واپس کرنے پڑے۔

کیا سپریم کورٹ نے اسے کرپشن کہا؟

اکتوبر- نومبر 2023ء میں جب پاکستان کی سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کا معاملہ زیرِ بحث آیا، تو برطانیہ سے آنے والی رقم پر وہ فیصلہ دے ہی نہیں سکتی تھی کیونکہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ مقدمہ تھا ہی نہیں۔ سپریم کورٹ کا ارتکاز اس مسئلے پر تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے رضامندی پر مبنی فیصلے پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا اور قسطیں جمع کرانے کا سلسلہ کیوں روک دیا؟ دوسرا اہم سوال اس کے سامنے یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا اکاؤنٹ اس مقصد کےلیے کیوں استعمال کیا گیا۔ اس سیاق میں 23 نومبر 2023ء کے حکمنامے میں ” سپریم کورٹ کو غیر ضروری طور پر ایسی رقم کے ساتھ منسلک کیا گیا جو غالباً مجرمانہ کارروائی کی آمدنی تھی جس کا این سی اے نے کھوج لگایا، پکڑا اور پھر منجمد کیا۔“ سپریم کورٹ کے سامنے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ایک دیوانی متفرق درخواست (نمبر 9760 بابت 2023ء) جمع کرائی گئی جس میں کہا گیا کہ چونکہ اس رقم کے متعلق نیب نے پہلے ہی سے ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پر صراحت کے ساتھ کہا: ”ہمیں اپنے اختیارِ سماعت کا اچھی طرح علم ہے اور اس کے متعلق کوئی حکم دینا تو دور کی بات ہے ہم اسے بھی نامناسب سمجھتے ہیں کہ اس پر تبصرہ کریں کیونکہ اس سے فریقوں کے حقوق پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔“

ریاستِ پاکستان کو یا سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں؟

مشتبہ 190 ملین پاؤنڈ حکومتِ پاکستان کو دینے کے بجاے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے گئے اور اس کی توجیہ یہ کی گئی کہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی بحریہ ٹاؤن و ملک ریاض کو حکم دیا تھا کہ وہ اس اکاؤنٹ میں 460 ارب روپے کی رقم قسطوں میں جمع کرائیں اور برطانیہ میں ہونے والے معاہدے کے مطابق اس رقم کا اسی 460 ارب روپے کی مد میں دینا ضروری تھا۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا، اس رقم کا اس طرح سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں جمع کرانا مناسب نہیں تھا اور اس پر مزید بات بھی آگے آئے گی، لیکن احتساب عدالت کے فیصلے میں اسے اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے اس عمل کے ذریعے ملک ریاض کو ناجائز فائدہ پہنچایا گیا ہو، حالانکہ اوپر ذکر ہوا کہ معاہدے کی رو سے اس رقم کا اسی مد میں دینا ضروری تھا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس معاہدے کے بعد برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی نے اس منجمد رقم کو آزاد کردیا تھا اور اسی وجہ سے مبشرہ ملک کی ہدایت پر مشرق بینک نے یہ رقم پاکستان میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں جمع کرادی۔ اگر یہ رقم بدستور منجمد ہوتی، تو اس کی اس طرح منتقلی ممکن نہیں تھی۔ سوال یہ ہے کہ ملک ریاض وغیرہ کا برطانیہ میں جو بھی معاہدہ ہوا ہو، حکومتِ پاکستان اس میں کہاں سے آگئی؟

معاہدے میں حکومتِ پاکستان کا کردار

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ رقم پاکستان میں واپس آنی تھی، اس لیے حکومتِ پاکستان کا اس معاملے میں آنا ضروری تھا۔ اس کے بعد کا سوال یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے اس معاہدے کو ”صیغۂ راز“ میں رکھنے پر ہامی کیوں بھری؟ اس سوال کا جواب یہ دیا جاتا ہےکہ چونکہ معاہدہ فریقین کے درمیان پہلے سے طے شدہ تھا، اس لیے اگر حکومتِ پاکستان یہ شرط نہ مانتی، تو اس معاہدے پر عمل نہ ہوتا اور نتیجتاً اس رقم کی پاکستان کو منتقلی رک جاتی۔ گویا اگر حکومتِ پاکستان یہ پوزیشن لیتی کہ یہ رقم جرم کی آمدنی ہے اور اس لیے اسے بحقِّ سرکار ضبط کرنا چاہیے، تو اس صورت میں اس پر لازم ہوتا کہ اپنا یہ دعوی وہاں کے قانونی نظام میں ثابت کرتی۔ تاہم چونکہ خود وہاں کی ایجنسی نے ایک خاص حد تک جانے کے بعد اس معاملے میں مزید پیش رفت روک کر اسی پر اکتفا کیا کہ یہ رقم پاکستان کو واپس منتقل کی جائے اور اسے بحریہ ٹاؤن کے ذمے واجب الادا رقم کی ادائیگی میں شامل کیا جائے، تو شاید حکومتِ پاکستان کےلیے بھی اس صورتِ حال میں ایسا کرنا ایک بہتر آپشن تھا کیونکہ اس طرح مزید رقم اور محنت کیے بغیر یہ رقم واپس آگئی۔ ویسے بھی وھائٹ کالر کرائم کا ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور عموماً اس طرح کے سمجھوتے کو ایک بہتر نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔

معاہدے کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟

یہ سوال بھی کئی لوگوں نے اٹھایا ہے اور احتساب عدالت کے فیصلے میں بھی اس کو خصوصی توجہ کا مستحق سمجھا گیا ہے، حالانکہ خفیہ رکھنے کی شرط برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی نے بھی تسلیم کی ہوئی تھی، اور عموماً ایسے معاہدات میں ایسی شرط رکھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو پیچھے ذکر کی گئی کہ وھائٹ کالر کرائم کا ثابت کرنا ایک مشکل کا ہے اور اگر جرم و سزا سے کمتر درجے پر صرف پیسوں کی وصولی کی حد تک بات ہوجائے تو اسے بھی غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے مجھے اس شرط میں کوئی خاص مسئلہ نظر نہیں آتا۔ نہ ہی یہ بات کوئی خاص اہمیت رکھتی ہے کہ حکومتِ پاکستان نے بھی یہ شرط کیوں منظور کی۔ وجہ وہی ہے۔ 190 ملین پاؤنڈز کی واپسی بذاتِ خود ایک کامیابی تھی اور یہ شرط نہ ماننے کی صورت میں اس رقم کی واپسی کا معاملہ لٹک سکتا تھا۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ اس معاہدے کو کابینہ سے منظور کراتے وقت کابینہ کے ارکان سے بھی اسے کیوں خفیہ رکھا گیا۔ آئینی طور پر کابینہ ہی اصل حکومت ہوتی ہے۔ وزیرِ اعظم کو کابینہ کے سربراہ کی حیثیت سے خصوصی حیثیت یقیناً حاصل ہوتی ہے، لیکن پارلیمانی نظام کابینہ کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔ اس لیے صرف چند وزرا کا اس معاہدے سے واقف ہونا اور دیگر وزرا سے صرف سربمہر لفافے کی منظوری حاصل کرنا یقیناً غلط تھا، لیکن یہ غلطی تنہا وزیرِ اعظم یا ان کے پسندیدہ وزرا اور مشیروں کی نہیں تھی؛ یہ غلطی پوری کابینہ کی تھی، ان وزرا کی بھی جنھوں نے لفافہ کھولے بغیر، اور معاہدے کا متن پڑھے بغیر، اس کی منظوری دی۔

کابینہ کی انفرادی و اجتماعی ذمہ داری

اسی انفرادی و اجتماعی ذمہ داری کے اصول پر آئین و قانون کی نظر میں اس معاہدے کی منظوری کےلیے عمران خان تنہا نہیں، بلکہ ان کے تمام وزرا، بشمول پرویز خٹک اور زبیدہ جلال کے، ذمہ دار ہیں۔ اس لیے اگر اس خفیہ معاہدے کی منظوری دے کر عمران خان کرپٹ پریکٹس اور اختیار کے ناجائز استعمال کے مرتکب ہوئے ہیں، تو اس کا ارتکاب ان کی پوری کابینہ نے بھی کیا ہے۔ جن کا ”ضمیر“ بعد میں جاگ اٹھا ہے، انھیں اسی موقع پر جو کم سے کم کام کرنا چاہیے تھا، وہ اس معاہدے کی منظوری کے خلاف اختلافی نوٹ لکھنا تھا۔ جنھوں نے اس وقت یہ نوٹ نہیں لکھا، ان کا بعد میں پارسائی کا دعوی ناقابلِ التفات ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ کابینہ سے اس معاہدے کی منظوری سے قبل ہی رقم سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوچکی تھی، تو اخلاقی لحاظ سے اس پر سوال یقیناً اٹھ سکتا ہے کہ یہ بات کابینہ کے سامنے کیوں نہیں رکھی گئی، لیکن آئینی و قانونی لحاظ سے اس پر کوئی خاص نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اور رجسٹرار کی ذمہ داری کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے