غزہ کے خلاف "راشن خیال” مسلمانوں کی فرد جرم

ASIF-MEHMOOD.jpg

مسلمانوں کی ملامتی دانش، فلسطینیوں کے خلاف فرد جرم مرتب کر چکی ہے۔ سوال یہ ہے دلیل، منطق، قانون اور اخلاقیات کی دنیا میں اس فرد جرم کا کوئی اعتبار ہے؟

ایک مکتب فکر نے تو اب عادت ہی بنا لی ہے، جہاں بھی مسلمانوں کا معاملہ ہو تو اکتائے ہوئے رہنا۔ مسلمانوں کو ہی لعن طعن کرتے رہنا۔ انہیں ہدف ملامت بنائے رکھنا۔ مغرب سے ہر وقت، ہر معاملے میں، ہر مقام پر، غیر مشروط طور پر مرعوب رہنا۔ یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں اور منہ پر کہیں مسلمانوں کی نسل کشی کے چھینٹے نظر آئیں تو انہیں ان کے عارض و رخسار کی سرخی قرار دے لینا۔ منفرد ہونے کی خواہش بے کراں۔ ہمیشہ امت کے عمومی موقف کی الٹی سمت کھڑاہو کر ملامتی فکر کا پرچم بلند کیے رکھنا۔ مسلمانوں کی آنکھ کے تنکے کو شہتیر سمجھ کر دہائی دینا اور مغرب کے شہتیر کو تنکا سمجھ کر نظر انداز کر دینا۔

فلسطین میں پندرہ ماہ مقتل آباد رہا، یہ ایسے بے نیاز رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، مسلمانوں پر سوگ کا عالم رہا یہ لاتعلق رہے۔ یہ منادی دیتے رہے کہ حماس نے اسرائیل سے ٹکرا کر حماقت کی ہے اور اب اس کا وجود مٹ چکا ہے، اب وہ قصہ ماضی بن چکی ہے۔ اور جب اسرائیل نے اسی حماس کے ساتھ سیز فائر کیا تو جیسے ہی مسلمانوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑی ، یہ بے اختیاری میں میدان میں آ گئے ہیں کہ رکو تو، خوش کیوں ہو، تم کب جیتے، تم تو ہارے ہو۔

اس فرد جرم کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو صہیونیوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی چاہیے تھی، انہوں نے حماقت کی، انہوں نے عقل سے کام نہیں لیا، رخصت کی بجائے راہ عزیمت اختیار کی،اس کے نتیجے میں اب جو بھی وبال آیا ہے اس کے ذمے دار یہ خود ہیں۔انہیں تعلیم سے جڑنا چاہیے تھا انہوں نے کم عقلی کی اور بندوق اٹھا لی۔ یہ خود اپنے خیر خواہ ہی نہیں اور یہ لاشوں کا کھیل کھیلتے ہیں۔

غزہ کو تعلیم سے دور ہونے اور حماقت کا مرتکب ہونے کا طعنہ دینے والوں کی سادگی اور لاعلمی دونوں گدگدا دیتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اوسطا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ غزہ کے ہیں۔مسلم دنیا کے اہل علم و فکر کو غزہ کو طعنہ دیتے ہوئے ازہ مروت، کم از کم تھوڑا نادم تو ہونا چاہیے۔ مسلم دنیا میں امن ہے، دولت ہے، آسودگی ہے، بلند بالا عمارتیں بن رہیں ہیں، کھیلوں کے میدان آباد ہیں، پھر بھی تعلیم کے میدان میں غزہ کا مقتل ان سے آ گے ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی نے انہیں دنیا کے بہترین تعلیم یافتہ پناہ گزین قرار دے رکھا ہے۔ اس جنگ کے آغاز پر بھی غزہ کی اس چھوٹی سی بستی میں جتنے اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر انجینیئر وغیرہ موجود تھے، اتنے پڑوس کی بعض پوری کی پوری دولت مند ریاستوں میں نہ ہوں۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں جتنے طالب علم تھے، قریب اتنی ہی طالبات تھیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا یہ تناسب کسی اور مسلم ملک میں ہو تو بتا دیجیے۔ غزہ والے تو انتہا پسند ٹھہرے، روشن خیال مسلم معاشروں میں سے کوئی معاشرہ اپنی بچیوں کے لیے ایسا شاندار علمی ماحول رکھتا ہوتو بتائیے۔ غزہ 1948 کے پناہ گزینوں کی چھوٹی سی بستی ہے۔ سکول کم پڑ گئے تو 198 سکول ڈبل شفٹ میں اور 75 سکول تین شفٹوں میں کام کرتے رہے لیکن انہوں نے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا۔ بات طویل ہو جائے گی، بس اتنا جان لیجیے کہ پاکستان کا لٹریسی ریٹ 62 فی صد ہے اور غزہ کا لٹریسی ریٹ 96 فی صد تھا۔ آفرین ہے کہ پاکستان کے دانشور غزہ پر فرد جرم عاید کر رہے ہیں کہ ان کم عقل مزاحمتیوں کو عقل کو زحمت دینا نہیں آتی۔

لڑائی کی ذمہ داری عام فلسطینیوں پر ڈال دینا بھی عجیب رویہ ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ مسلمان تھے جنہوں نے بقائے باہمی کے کسی بھی اصول کی نفی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعلان بالفور کے بعد بھی، جبری طورپر یہود کی آبادکاری کے بعد بھی، مسلمان اس بات پر تیار تھے کہ اب بھی امن کی خاطر مل کر رہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کے قیام سے سالوں پہلے، انتداب اتھارٹی کو مفتی اعظم فلسطین اور فلسطین کونسل نے یہ باقاعدہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر چہ ہمیں یہود کی اس جبری آبادکاری پر اختلاف ہے لیکن امن کی خاطر آئیے ایک مشترکہ پارلیمان بنا لیتے ہیں، یہودی بھی اس کے ممبر ہوں اور مسلمان اور عیسائی بھی اس کے ممبر ہوں اور مل کر معاملات کوچلا لیتے ہیں۔ صہیونیوں نے یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیاکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ انہیں نکال کر اپنا ملک بنائیں گے۔ مسلمانوں کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں۔

اسرائیل کی ریاست کے قیام کے اعلان سے قبل، قتل عام صہیونیوں نے کیا تھا۔ سینکڑوں گاؤں ملیا میٹ کر دیے اور دو ہفتوں میں ساڑھے سات لاکھ مسلمان ہجرت کر گئے۔ بین الاقوامی قانون انہیں واپسی کا حق دیتا ہے، لیکن اسرائیل نے انہیں آج تک اپس نہیں آنے دیا۔ ان کی اکثریت غزہ میں ہے۔ یہ سارے ہجرتی ہیں۔ یہ کب تک ہجرتیں کرتے رہیں۔ ایک وقت آتا ہے آدمی سوچتا ہے اب جان تو جائے گی، مزید ہجرت نہیں ہو گی۔ غزہ نے یہی کیا۔ ان کی نفسیاتی کیفیت کو سجھے بغیر ان پر طعنہ زن ہو جانا، دلیل اور اخلاقیات دونوں اعتبار سے کمزور رویہ ہے۔

جنگ کا آٖغاز فلسطینیوں نے نہیں کیا تھا، جنگ کا آغاز صہیونیوں نے کیا تھا۔ جنگ کا آغاز ڈیڑھ سال پہلے اکتوبر میں نہیں ہوا تھا، یہ 1948 میں ہوا تھا اور اسرائیلی صہیونیوں نے کیا تھا۔انٹر نینشل لا بہت واضح ہے کہ جب تک ناجائز قبضہ برقرار رہے جب تک حالت جنگ ہی سمجھی جائے گی۔تب سے اب تک اسرائیل قابض ہے، یعنی جنگ جاری ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے قوانین کی رو سے تو یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں، نابلوس اس کا شہر نہیں، الخلیل اس کا شہر نہیں، سارا مغربی کنارہ اس کا نہیں، غزہ اس کا نہیں، لیکن وہ قابض ہے۔ دنیا کا کون سا اصول فلسطینیوں کو مزاحمت کا حق نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل انہیں یہ حق دیتی ہے۔

مغربی کنارے میں تو حماس نہیں ہے۔ کیا وجہ سے وہاں دس سالوں سے روزانہ3 بچے ا وسطا قتل کیے جا رہے ہیں اور مقتولین میں سے 96 فیصد کے سر میں گولی ماری جاتی ہے۔کیا کسی کے پاس وقت ہے کہ وہ صرف یہ دیکھ لے کہ جو فلسطینی اسرائیل کے شہری بن چکے وہ کس طرح تیسرے درجے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مقبوضہ جات کو جمہوری جدوجہد کی تلقین کرنے والے کیا یہ جاننے کی زحمت کریں گے کہ اسرائیل کا بنیادی قانون (آئین تو اس کا ہے ہی نہیں) کس طرح نسل پرست قانون ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی فلسطینی کے لیے بطور انسان زندہ رہنے کے امکانات معدوم تر ہو چکے۔ یہ کیسا رویہ ہے کہ قاتل کی مذمت کے تصور سے ہی لوگ کانپ کانپ جائیں اور طنز و حقارت کے سارے تیر مظلوموں کے سینے میں اتار دیے جائیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے