واشنگٹن میں محسن نقوی کی ” تائیوان” تقریب میں شرکت "غلطی یا بدلتی پالیسی”
پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی حال ہی میں واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی کوشش کے دوران ایک متنازع صورتحال کا اُس وقت شکار ہوگئے جب امریکی سینیٹرز سے ملاقات کی کوشش کے دوران وہ مبینہ طور پر غلطی سے “نیو فیڈرل سٹیٹ آف چائنا” (NFSC) کے زیرِ اہتمام ایک تقریب میں گُھس گئے، جو چینی کمیونسٹ پارٹی (CCP) کی مخالف تنظیم ہے۔چاہے نقوی کی NFSC کی تقریب میں مبینہ موجودگی حادثاتی تھی یا ان کی خود اعتمادی کی بنا پر، جو ان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سالے ہونے کے ناطے پیدا ہوئی ہو، یہ واقعہ کئی سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بطور وزیر داخلہ، ان کی اس قسم کی غلطی نہ صرف ان کے ذاتی اعمال تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے پاکستان کی دہائیوں پرانی “تائیوان پالیسی” میں ممکنہ تبدیلی یا چین کے حوالے سے جنرل عاصم منیر کی سوچ کا عندیہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔اگر نقوی پاکستان کی چین پالیسی کو اس کے سب سے قریبی اتحادی کے بجائے صرف ایک اتحادی کے طور پر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں انتہائی محتاط رہنا ہوگا۔ ان کے اقدامات چین کو غلط پیغام بھیجنے کا خطرہ رکھتے ہیں، جو پاکستان کے سٹریٹجک اور اقتصادی مفادات کے لیے نہایت اہم ہے۔
چین جزیرۂِ تائیوان کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے جو اس وقت امریکی حمایت یافتہ باغی حکومت کے قبضے میں ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کو فوراً نقوی کی NFSC کی تقریب میں مبینہ موجودگی کے بارے میں تفصیلی وضاحت جاری کرنی چاہے اور اگر ایسا ہوا ہے تو اُس سے لاتعلقی ظاہر کرنی چاہیے اور ایک واضح بیان جاری کرنا چاہیے جس میں “ون چائنا پالیسی” کے عزم کو دہرایا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو یہ پاکستان اور چین کے درمیان دہائیوں پرانے تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ دفتر خارجہ کو بھی وضاحت دینی چاہیے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ کی NFSC کی تقریب میں شرکت وزارت خارجہ کی پالیسی کے خلاف تھی اور یہ مسٹر نقوی کا ذاتی فعل تھا۔اس سے پہلے کہ پاکستان کا “گودی” میڈیا محسن نقوی کا دفاع کرے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نیو فیڈرل سٹیٹ آف چائنا (NFSC) کیا ہے۔ یہ تنظیم 4 جون 2020 کو چینی منحرف گوا وینگئی (مائلز گوا) اور سابق ٹرمپ مشیر سٹیو بینن نے قائم کی تھی، جس کا مقصد چینی کمیونسٹ پارٹی کو ہٹانا اور چین میں جمہوری حکومت قائم کرنا ہے۔ اگرچہ یہ تنظیم آزادی، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کو فروغ دینے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اس کے بانیوں پر دھوکہ دہی کے الزامات اور تحریک کی محدود حمایت یا قانونی حیثیت کی کمی کی وجہ سے یہ متنازعہ رہی ہے۔پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق، وزیر داخلہ نے دو امریکی سیاستدانوں سے ملاقاتیں کی ہیں، جیک برگمین اور تھامس رچرڈ سوزی۔ دونوں تائیوان کی حمایت کرتے ہیں، برگمین، جو کہ ایک ریپبلکن ہیں، تائیوان کی سیکیورٹی کی حمایت اور اسے ہتھیاروں کی فروخت پر زور دیتے ہیں، اور سوزی، جو کہ ایک ڈیموکریٹ ہیں، بھی تائیوان کے دفاع اور خودمختاری کی حمایت کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں، پاکستان کے لیے اپنی “ون چائنا پالیسی” کا اعادہ ضروری ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے۔ یہ پالیسی چین کے عوامی جمہوریہ (PRC) کو چین کی واحد قانونی حکومت تسلیم کرتی ہے، جس میں تائیوان پر اس کا دعویٰ بھی شامل ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات سے گریز کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر چین کی خودمختاری اور تائیوان پر اُس کے دعوے کی حمایت کی ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان اتحاد، خاص طور پر چائنا-پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) جیسے منصوبوں کے ذریعے، پاکستان کی اقتصادی اور سفارتی ترجیحات کے لیے اہم ہے۔ اس پالیسی سے انحراف علاقائی تعلقات کو غیر مستحکم کرنے اور پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نقوی کے اقدامات، چاہے وہ جان بوجھ کر ہوں یا حادثاتی، چین کی جانب سے انھیں معاندانہ اقدام لیے جا سکتے ہیں، جس کی وضاحت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔چین کے ساتھ اپنی پارٹنرشپ کو برقرار رکھنے کے لیے، پاکستان کی قیادت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ نقوی جیسے مبینہ انفرادی اقدامات قومی پالیسی کو کمزور نہ کریں یا سفارتی تناؤ پیدا نہ کریں۔ یہ واقعہ پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ اپنی مضبوط شراکت داری اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کے عزم کو دوبارہ ظاہر کرنے کے لیے ایک تنبیہ ہے۔