ایک طرف لاس اینجلس شعلوں کی لپیٹ میں، دوسری جانب لوٹ مار کی نئی لہر

2479161.jpg

حالیہ دنوں میں لاس اینجلس کی آگ نے امریکہ کے معاشرتی اور سماجی رویوں کی عکاسی کی ہے۔ کیلیفورنیا، جو دنیا کی سب سے امیر ریاستوں میں شمار ہوتی ہے، اس وقت اللہ کے عذاب اور غضب کی زد میں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور، امریکہ، اس آگ پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، لوٹ مار اور چوری کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ امیر ترین ریاست کے لوگوں کا رویہ کس قدر تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔امریکہ کی بنیاد ہی نسل کشی اور لوٹ مار پر رکھی گئی ہے۔ سفید چمڑے والے یورپی مہاجرین نے مقامی ریڈ انڈینز کو قتل کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور انہیں تقریباً معدوم کر دیا۔ یہی طرزِ عمل برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں بھی اپنایا گیا۔

لاس اینجلس میں لگی آگ اور اس کے ساتھ جاری لوٹ مار، امریکی معاشرت کی اصل فطرت کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک طرف آگ سے بچاؤ کے اقدامات ناکافی ثابت ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف شہریوں کی ڈاکو اور چور فطرت نمایاں ہو رہی ہے۔ یہ واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بحران کے وقت قوموں کی اصل فطرت ظاہر ہو جاتی ہے۔امریکہ کے باشندے اپنی ڈاکو، چور، اور قاتل فطرت سے باز نہیں آ رہے۔ یہ فطرت ان کی تاریخ اور تربیت کا حصہ بن چکی ہے۔ بیرون ملک لوٹ مار اور خونریزی ان کی پالیسی کا حصہ ہے، جس میں وہ تبدیلی لانے سے قاصر ہیں۔ ان کے رویوں کی بنیاد ظلم، ناانصافی، اور استحصال پر رکھی گئی ہے۔

لاس اینجلس کی آگ اور اس کے ساتھ جاری لوٹ مار کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکی معاشرہ بحران کے وقت اپنی حقیقی فطرت پر واپس آ جاتا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح ایک معاشرتی نظام جو ظلم اور استحصال پر مبنی ہو، آفات کے وقت بے نقاب ہو جاتا ہے۔لاس اینجلس کی موجودہ صورتحال نہ صرف امریکی معاشرتی مسائل کو نمایاں کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ان کی پالیسیوں اور رویوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔