ایک طرف لاس اینجلس شعلوں کی لپیٹ میں، دوسری جانب لوٹ مار کی نئی لہر
حالیہ دنوں میں لاس اینجلس کی آگ نے امریکہ کے معاشرتی اور سماجی رویوں کی عکاسی کی ہے۔ کیلیفورنیا، جو دنیا کی سب سے امیر ریاستوں میں شمار ہوتی ہے، اس وقت اللہ کے عذاب اور غضب کی زد میں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور، امریکہ، اس آگ پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، لوٹ مار اور چوری کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ امیر ترین ریاست کے لوگوں کا رویہ کس قدر تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔امریکہ کی بنیاد ہی نسل کشی اور لوٹ مار پر رکھی گئی ہے۔ سفید چمڑے والے یورپی مہاجرین نے مقامی ریڈ انڈینز کو قتل کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور انہیں تقریباً معدوم کر دیا۔ یہی طرزِ عمل برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں بھی اپنایا گیا۔
لاس اینجلس میں لگی آگ اور اس کے ساتھ جاری لوٹ مار، امریکی معاشرت کی اصل فطرت کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک طرف آگ سے بچاؤ کے اقدامات ناکافی ثابت ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف شہریوں کی ڈاکو اور چور فطرت نمایاں ہو رہی ہے۔ یہ واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بحران کے وقت قوموں کی اصل فطرت ظاہر ہو جاتی ہے۔امریکہ کے باشندے اپنی ڈاکو، چور، اور قاتل فطرت سے باز نہیں آ رہے۔ یہ فطرت ان کی تاریخ اور تربیت کا حصہ بن چکی ہے۔ بیرون ملک لوٹ مار اور خونریزی ان کی پالیسی کا حصہ ہے، جس میں وہ تبدیلی لانے سے قاصر ہیں۔ ان کے رویوں کی بنیاد ظلم، ناانصافی، اور استحصال پر رکھی گئی ہے۔
لاس اینجلس کی آگ اور اس کے ساتھ جاری لوٹ مار کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکی معاشرہ بحران کے وقت اپنی حقیقی فطرت پر واپس آ جاتا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح ایک معاشرتی نظام جو ظلم اور استحصال پر مبنی ہو، آفات کے وقت بے نقاب ہو جاتا ہے۔لاس اینجلس کی موجودہ صورتحال نہ صرف امریکی معاشرتی مسائل کو نمایاں کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ان کی پالیسیوں اور رویوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔