بجلی کی لاگت میں کمی: 14 آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی کا فیصلہ
وفاقی کابینہ نے بجلی کی قیمتوں میں کمی اور قومی خزانے کے 1.4 کھرب روپے بچانے کے لیے 14 انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے معاہدوں پر نظرثانی کی منظوری دی ہے جس کی سفارش پاور ڈویژن کی جانب سے کی گئی تھی۔رپورٹس کے مطابق نظرثانی شدہ معاہدوں کے تحت 14 آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے بعد، کابینہ نے ان آئی پی پیز کے منافع اور لاگت میں 802 ارب روپے کی کمی کی سفارش منگل کو منظور کی ہے۔ان آئی پی پیز سے پچھلے سالوں کے زائد منافع کی مد میں 35 ارب روپے کی رقم کٹوتی بھی کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کابینہ کا اجلاس وزیرِاعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وزیرِاعظم ہاؤس میں منگل کو منعقد ہوا تھا۔دوران اجلاس بتایا گیا کہ ان آئی پی پیز میں سے 10 آئی پی پیز 2002 کی پاور پالیسی کے تحت کام کر رہے ہیں، جبکہ چار دیگر 1994 کی پاور پالیسی کے تحت قائم کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ 1994 کی پاور پالیسی کے تحت کام کرنے والے ایک آئی پی پی کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔نظرثانی شدہ معاہدوں سے حکومت کو ان کی مدت کے دوران 1.4 کھرب روپے کی بچت کی توقع ہے، جبکہ سالانہ 137 ارب روپے کی بچت ہوگی، جس سے بجلی صارفین کو فائدہ پہنچے گا۔
بجلی فراہمی کے لیے نئے نظام کی منظوری
وزیرِاعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ کی توانائی کمیٹی کے اجلاس میں منگل کو سپیشل اکنامک زونز اور صنعتی سٹیٹس کو بجلی کی فراہمی کے نئے نظام کی منظوری بھی دے دی گئی، جس کا مقصد صنعتی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہے۔اجلاس میں پاور ڈویژن کی پیش کردہ سمری کے تحت صنعتی سٹیٹس اور سپیشل اکنامک زونز کو ایک مرکزی مقام سے بجلی کی فراہمی کی اجازت دی گئی۔اس کے ساتھ ان زونز کی انتظامیہ کو بجلی کے کنکشن دینے، بل جمع کرنے، اور دیگر متعلقہ امور خود دیکھنے کا اختیار بھی دیا گیا۔وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں ڈپٹی وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، احسن اقبال، احد خان چیمہ، سردار اویس خان لغاری، وزیرِ مملکت علی پرویز ملک، معاونِ خصوصی محمد علی، وزیرِاعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسن افضل، اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔دوران اجلاس بتایا گیا کہ یہ نیا نظام وزیرِاعظم کی قیادت میں حکومت کا صنعتی ترقی کے لیے ایک اہم قدم ہے۔
اس نظام کے تحت سپیشل اکنامک زونز اور صنعتی سٹیٹس میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے حکام کی مداخلت ختم کر دی گئی ہے۔اس حوالے سے ایک مخصوص آپریشنز اور مینجمنٹ کا نظام تیار کیا جا رہا ہے، جسے پاور ڈویژن اور نیپرا آئندہ دو سے تین ماہ میں نافذ کریں گے۔نئے نظام کے تحت زون ڈیویلپرز کو زونز کے اندر صنعتوں کو بجلی کی فراہمی کے لیے کسی اضافی لائسنس کی ضرورت نہیں ہوگی۔اس نظام سے صنعتوں کے درمیان مسابقت کو فروغ ملے گا، جس سے صنعتی ترقی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔وزیرِاعظم نے ہدایت کی کہ اس نئے نظام کو تمام سپیشل اکنامک زونز میں نافذ کیا جائے۔وزیرِاعظم نے کہا کہ ’بجلی کی بلا تعطل فراہمی سے ملک میں صنعتی ترقی کی رفتار بڑھے گی۔ صنعتیں فعال ہونے سے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ سپیشل اکنامک زونز میں بجلی کے بہتر نظام سے صنعتیں ملکی معیشت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔اجلاس میں پاور ڈویژن نے جولائی تا نومبر 2024 کے دوران سرکلر قرضے کی صورت حال پر مبنی رپورٹ بھی پیش کی۔
توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ
اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ وزیرِاعظم کے پاور سیکٹر ریفارمز کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں، اور موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں گرشی قرضے میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کمی واقع ہوئی ہے۔جولائی تا نومبر 2023 میں گردشی قرضہ 368 ارب روپے بڑھا تھا، جبکہ 2024 کے پہلے پانچ ماہ میں یہ 12 ارب روپے کم ہوا ہے۔اس طرح گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں گردشی قرضے میں مجموعی طور پر 380 ارب روپے کی بہتری آئی ہے۔موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں ریکوری کی شرح چار فیصد اضافے کے ساتھ 96 تک پہنچ گئی، جبکہ پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے نقصانات 53 ارب روپے کم ہو گئے ہیں۔دوران اجلاس یہ بھی بتایا گیا کہ موجودہ مالی سال میں بجلی کی مجموعی قیمت میں 4.64 روپے فی یونٹ کمی ریکارڈ کی گئی، جو کہ اصلاحات کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔وزیرِاعظم نے کہا کہ پاور سیکٹر کی اصلاحات کا عمل جاری ہے اور اس کے فوائد بتدریج سامنے آ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’ہم کم لاگت، ماحول دوست اور بلا تعطل بجلی کی فراہمی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ ہم آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کر رہے ہیں تاکہ صارفین کے لیے بجلی کی قیمت مزید کم کی جا سکے۔
وزارت توانائی کی مزید 18 آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کی تجویز
دوسری جانب وزیر توانائی سردار اویس احمد لغاری نے منگل کو بتایا کہ گردشی قرضے کم ہو کر 12 ارب روپے رہ گئے ہیں، جس کے بعد جولائی سے نومبر 2024 کے عرصے کے دوران یہ قرضہ 2,381 ارب روپے تک پہنچ گیا، جبکہ 30 جون 2024 کو یہ 2,393 ارب روپے تھا۔وزیر کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ جولائی سے نومبر 2024 کے دوران وصولی کی شرح 96 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو 2023 کے اسی عرصے کے مقابلے میں نمایاں بہتری ہے، اور یہ حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔اس کے علاوہ وزیر نے انکشاف کیا کہ پاور ڈویژن نے وفاقی کابینہ کے سامنے مزید 18 آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں (آئی پی پیز) کے ساتھ نظرثانی شدہ معاہدے کی تجویز پیش کی ہے۔
کابینہ کی توانائی کمیٹی نے پاور ڈویژن کی تجویز منظور کر لی، جس کے تحت صنعتی سٹیٹس اور خصوصی صنعتی زونز کو سنگل پوائنٹ بجلی کی فراہمی کی اجازت دی گئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ان زونز کی انتظامیہ کو کنکشن دینے، بل جمع کرنے اور دیگر متعلقہ امور کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ صنعتی زونز اور خصوصی صنعتی زونز سے نئے کنکشن اور بلنگ کے عمل کے حوالے سے شکایات کو حل کرنے کے لیے کیا گیا۔اس سلسلے میں ایک نیا میکانزم بھی تیار کیا جا رہا ہے، جسے پاور ڈویژن اگلے دو سے تین ماہ میں نافذ کرے گا۔وزیر نے کہا کہ پاور سیکٹر ان اقدامات کے ثمرات حاصل کرنا شروع کر چکا ہے، جو پاور ڈویژن نے اٹھائے ہیں