غزہ کی جنگ: مجوزہ فائر بندی معاہدے کے اہم نکات

حماس-اسرائیل.jpg

سات اکتوبر 2023ء کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے  حملے کے نتیجے میں شروع ہونے والی غزہ کی جنگ، جسے اب تک 15 ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، کو رکوانے کی کوششوں کے بنیادی مقاصد دو ہیں۔ ایک فائر بندی اور دوسرا حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی۔امریکہ، مصر اور قطر کے ساتھ مل کر گزشتہ ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے اس تنازعے میں جو فائر بندی کرانا چاہتا ہے، اس کے لیے جاری کوششوں میں اب اس لیے بہت تیزی آ چکی ہے کہ امریکہ کے عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے صدر جو بائیڈن اور ان کے جانشین اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کی خواہش ہے کہ یہ فائر بندی معاہدہ 20 جنوری کو ٹرمپ کی صدارتی حلف برداری سے پہلے پہلے طے پا جائے۔دوحہ میں جاری مذاکرات کے نتیجے میں کل پیر کو علی الصبح اس معاہدے کا ایک حتمی مسودہ قطری ثالثوں کی طرف سے اسرائیل اور حماس دونوں کے نمائندوں کے حوالے کر دیا گیا تھا، جس پر فریقین کا حتمی جواب ابھی تک سامنے نہیں آیا۔

مجوزہ فائر بندی معاہدے کے اہم نکات

یرغمالیوں کی واپسی:

اس معاہدے کے نتیجے میں پہلےمرحلے میں 33 اسرائیلی یرغمالی رہا کیے جائیں گے، جن میں خواتین، بچے اور فوجی خواتین شامل ہوں گی۔ اس کے علاوہ رہا کیے جانے والے ان اسرائیلی یرغمالیوں میں 50 برس سے زائد عمر کے افراد بھی شامل ہوں گے اور وہ بھی جو زخمی یا بیمار ہیں۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے قبضے میں اسرائیلی یرغمالیوں میں سے زیادہ تر ابھی تک زندہ ہیں، تاہم حماس کی طرف سے ابھی تک اس بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

پہلے مرحلے کا دورانیہ:

فائر بندی کے پہلے مرحلے کا دورانیہ کئی ہفتے ہو گا۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مدت کی ابھی تک کوئی تخصیص نہیں کی گئی تاہم فلسطینی ذرائع کے مطابق اس اولین مرحلے کا دورانیہ 60 دن ہو گا۔

پہلے مرحلے کے بعد کا 16 واں دن:

اگر اس پہلے مرحلے پر عمل درآمد طے شدہ اتفاق رائے کے مطابق ہوتا ہے، تو اس کے نفاذ کے بعد 16 ویں دن اس سیزفائر ڈیل کے دوسرے مرحلے سے متعلق مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا۔اس مرحلے میں باقی ماندہ اسرائیلی یرغمالی رہا کیے جائیں گے، جن میں اسرائیلی مرد فوجی اور سویلین نوجوان شامل ہوں گے، جبکہ ساتھ ہی ان یرغمالیوں کی لاشیں بھی واپس اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی، جو اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔

فلسطینی قیدیوں کی رہائی:

اسرائیل اس فائر بندی معاہدے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو ‘کافی تعداد میں‘ رہا کرے گا۔ ان قیدیوں میں کچھ ایسے بھی ہوں گے، جو ہلاکت خیز حملوں کے جرم میں طویل مدت کی قید کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔اسرائیل کے مطابق ان قیدیوں کی حتمی تعداد ابھی طے نہیں ہوئی جبکہ فلسطینی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ایک ہزار سے زائد ہو گی۔

فوجی انخلا:

اسرائیل غزہ سے اپنے فوجی تب تک نہیں نکالے گا، جب تک کہ اسرائیلی یرغمالی رہا نہیں کیے جاتے۔ ان یرغمالیوں کی واپسی کے بعد بھی اسرائیلی فوجی انخلا مرحلہ وار مکمل ہو گا۔ تاہم اسرائیلی فوجی دستے غزہ پٹی اور اسرائیل کے درمیان سرحد کے قریب اس لیے تعینات رہیں گے کہ مستقبل میں وہ اسرائیلی سرحدی قصبوں اور دیہات کو فلسطینیوں کے ممکنہ حملوں سے بچا سکیں۔

امداد میں اضافہ:

غزہ سیزفائر ڈیل کے طے پا جانے کے بعد غزہ پٹی کی بحران زدہ آبادی کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر زیادہ اور بہتر مدد کے لیے غزہ پہنچنے والی امداد میں بھی واضح اضافہ کر دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ اور کئی بین الاقوامی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی کو اس وقت انسانی صورت حال کے حوالے سے شدید بحران کا سامنا ہے۔

غزہ پٹی پر مستقبل میں حکمرانی:

غزہ پٹی پر جنگ بندی کے بعد کون حکومت کرے گا، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ابھی تک خود اس تنازعے میں ثالثی کرنے والے ممالک اور ان کے نمائندوں کے پاس بھی نہیں ہے۔فائر بندی مذاکرات کے اب تک کے ادوار میں یہ موضوع بظاہر دانستہ طور پر حتمی مسودے میں اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ اس کی پیچیدہ نوعیت اور حساسیت کم از کم اس ڈیل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بنے، جو اب ثالثوں کے بقول اپنی تکمیل کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے