اینکر پرسن عمران ریاض کا بازیابی کے بعد پہلا انٹرویو
ایک عرصے تک منظرعام سے غائب رہنے والے اینکر پرسن اور یوٹیوبر عمران ریاض خان نے اپنی گمشدگی اور بازیابی کے بعد پہلی بار اس بارے میں کھل کر گفتگو کی ہے، جس دوران ان کا کہنا تھا کہ ’افسوس اگر میں نے کبھی سوچا کسی کا غائب ہونا ریاست کے مفاد میں ہوسکتا ہے۔‘
اپنے وکیل میاں علی اشفاق کے ساتھ ’کراس اگزیمینیشن‘ نامی پوڈ کاسٹ میں بات چیت کے دوران انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’تکلیف زیادہ تب ہوتی ہے، جب کوئی اپنا مارتا ہے۔‘
تاحال اس کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ عمران ریاض خان نے اتنا عرصہ کہاں، کن حالات میں اور کس کی تحویل میں گزارا۔
نو مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ملک کے مختلف شہروں میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور فوجی تنصیبات و عمارتوں پر حملے کیے گئے تھے۔
پولیس نے نقص امن کے خدشے کے تحت پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ عمران ریاض کو بھی گرفتار کیا تھا جو حکام کے مطابق سیالکوٹ ایئرپورٹ سے مبینہ طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
11 مئی کو رہائی ملنے کے بعد پولیس کے مطابق وہ جیل کے باہر سے لاپتہ ہو گئے تھے اور کئی ماہ بعد ستمبر میں گھر واپس پہنچے۔
عمران ریاض کے اس انٹرویو پر سوشل میڈیا پر بھی ردعمل سامنے آیا ہے، لیکن پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ انھوں نے پوڈ کاسٹ میں بات چیت کے دوران کیا کہا۔
’میں کوئی غدار تو نہیں‘
عمران ریاض خان نے یہ بھی کہا کہ ’میں کوئی غدار تو نہیں، میں نے ملک کے راز تو نہیں چُرائے ہوئے۔ میں دشمن ملک کے ساتھ تو نہیں ملا ہوا۔
’میں جو بات کر رہا تھا جو اختلاف رائے میں آسکتی ہے، وہ کوئی بھی کسی سے کر سکتا ہے۔ کسی سے ایسا برتاؤ نہیں ہونا چاہیے جیسے وہ ملک کا دشمن ہو۔‘
وہ کہتے ہیں کہ گمشدگی کے دنوں میں انھیں سب سے زیادہ یاد اللہ کی آئی۔ ’مجھے پتا تھا وہ (اغوا کار) چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک مجھے ڈھونڈ نہیں لیں گے۔ جب لاپتہ ہوا تو والد کے پاؤں پر چوٹ لگی ہوئی تھی۔ وہ عمرے پر نہیں جا سکے۔ وہ میرے لاپتہ ہونے پر بہت پریشان ہو گئے۔‘
عمران ریاض کی عدم موجودگی میں ایسی افواہیں بھی اُڑنے لگی تھیں کہ شاید وہ اب زندہ نہیں۔
عمران ریاض خان نے کہا کہ ان کے بعض دوستوں نے ان سے متعلق ایسی خبریں دیں کہ وہ حیران ہو گئے۔ ’ایک دوست نے کہا ہم چاہتے تھے پریشر بنے۔ میں نے کہا تم نے میرے گھر پر پریشر ڈال دیا تھا۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ بازیابی کے بعد ’کوئی مجھے گلے لگانے آیا تو کوئی میرا تماشا دیکھنے آیا۔ کوئی مجھے حوصلہ دینے آیا، کوئی دعا دینے اور کوئی مخبری کرنے۔‘
انھوں نے بتایا کہ آج بھی انھیں بولنے میں کچھ دقت ہوتی ہے۔ ’جب میں واپس آیا تو بول نہیں پا رہا تھا۔۔۔ ابھی بھی پرابلم ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔‘
عمران ریاض خان نے بتایا کہ وہ پچھلے چند دن سے بولنے میں بہتری محسوس کر رہے ہیں اور اسی لیے وہ پوڈکاسٹ میں شریک ہوئے۔ ’میں بول رہا ہوں اور بہتر بولوں گا۔
’کسی کو غائب کرنے کا کبھی کوئی جواز نہیں ہوتا‘
ماضی میں عمران ریاض خان ملک میں ریاستی اداروں پر تنقید کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔
جیسے کچھ سال قبل پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی حمایت کرنے والی سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے بارے میں عمران ریاض نے اپنے ایک وی لاگ میں کہا تھا کہ ’یہ اُن عورتوں میں سے ہیں جو دوسروں کے سامنے سچا بننے کے لیے اپنے گھر کی بُرائی کرتی ہیں۔۔۔ انھیں یہ نہیں پتا ہوتا وہ اپنے گھر کو آگ لگا رہی ہیں، وہ مغرب میں مشہور ہونے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کرتی ہیں۔۔۔ یہ پاکستان سے بھاگی ہوئی ہیں۔‘
یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگوں کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے کے الزام میں مطلوب گلالئی نے امریکہ میں پناہ لے لی تھی۔
اسی طرح عمران ریاض خان نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے منعقد ایک احتجاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ لوگ ملک کے ساتھ غداری کرتے ہیں اور اداروں پر حملہ کرتے ہیں۔‘
لیکن عمران ریاض کے بقول وہ پہلے اس معاملے کی شدت کو اس قدر محسوس نہیں کرتے تھے جتنا اب کرتے ہیں۔
بازیابی کے بعد پہلی بار ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مجھے آج افسوس ہے کہ میں نے کبھی زندگی میں یہ سوچا بھی کہ اگر کوئی غائب ہوا تو وہ کبھی ریاست کے مفاد میں بھی ہو سکتا ہے۔ نہیں، میں ان سارے لوگوں سے معافی مانگتا ہوں، جن کا دل دُکھا۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ کسی کو غائب کرنے کا کبھی کوئی جواز نہیں ہوتا۔ اگر کوئی آدمی کتنا بھی بڑا مجرم ہے، آپ اسے قانون کے سامنے لے کر آئیں۔ میں اس کی تکلیف سمجھتا ہوں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’قانون بننا چاہیے اور یہ لوگ گھروں کو آنے چاہییں لیکن میں نے کبھی اس معاملے کو اس شدت سے محسوس نہیں کیا جو اب کرتا ہوں۔ مجھے اس کا افسوس ہے، میری زندگی رہی اور میں بولتا رہا تو کوشش کروں گا یہ قرضہ اتارنے کی۔‘
لیکن ان کے مطابق غیر قانونی ہتھکنڈوں اور تشدد کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اس سب کے باوجود عمران ریاض آج بھی پیکا قانون کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت آن لائن مواد میں ریاستی اداروں پر تنقید کرنے پر صحافیوں کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پیکا کا قانون صحافیوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ ’جو لوگ کیچڑ اچھالتے ہیں، کیا یہ صحافت ہے؟ کیوں نہ ہوں سخت قوانین؟ ۔۔۔ میں قانون کے سخت ہونے کا حامی ہوں مگر اس کے غلط استعمال کے خلاف ہوں۔
’طویل عرصے بعد عمران ریاض کو سن کر بہت اچھا لگا‘
عمران ریاض کے انٹرویو پر سوشل میڈیا پر ردعمل بھی آیا ہے۔
صحافی اقرار الحسن نے کہا کہ ’عمران ریاض خان کا انٹرویو دیکھا، اُن سے متعلق جو شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ بھی نظر میں ہیں۔ بس اتنا کہوں گا کہ اِس ملک میں اپنا سچ ثابت کرنے کے لیے آپ کو ارشد شریف کی طرح مر کر دکھانا پڑتا ہے۔۔۔ اللہ عمران ریاض بھائی کا حامی و ناصر ہو۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’عمران بھائی آپ سے سيکھا کہ حق اور سچ کا ساتھ ديں۔ آپ ہماری آواز ہيں، ہم کیسے آپ کے لیے آواز نہ اٹھاتے۔‘
فوزیہ کلثوم نے کہا کہ ’عمران ریاض نے مسنگ پرسنز کے بارے میں اپنے ماضی کے موقف پر معافی مانگ لی۔‘
جبکہ حسنین جمیل نے تبصرہ کیا کہ ’طویل عرصے بعد عمران ریاض کو سن کر بہت اچھا لگا۔
’جس اعلیٰ ظرفی سے انھوں نے لاپتہ افراد کے حوالے سے اپنے ماضی کے موقف پر معافی مانگی اس سے میرے دل میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی ہے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا ’عمران ریاض کی آواز اس ریاست کا تعاقب کر رہی ہے، آج پھر سوال جنم لے رہے ہیں۔‘‘‘