ایلون مسک بھارتی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں کیخلاف ’اشتعال انگیزی‘ کی مہم میں شامل

101033438027e9c.jpg

دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک، جو حالیہ ہفتوں میں انتہائی دائیں بازو کی شخصیات کے دفاع میں یورپی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، اب ’ایشین گرومنگ گینگز‘ کی اصطلاح کے بارے میں ایک متنازع بحث میں شامل ہو گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایلون مسک کے حالیہ بیانات نے پاکستان مخالف نقصان دہ ’دقیانوسی تصورات‘ کو برقرار رکھنے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ایلون مسک کی تازہ ترین مداخلت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب ایک بھارتی قانون ساز پریانکا چترویدی نے برطانوی وزیر اعظم کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال کے اسکینڈلز کے سلسلے میں ’ایشیائی‘ لفظ کے استعمال پر تنقید کی تھی، جس میں زیادہ تر پاکستانی نژاد مرد ملوث تھے۔بھارت کی ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں چلنے والی جماعت شیوسینا کی رہنما پریانکا چترویدی نے ’ایکس‘ پر لکھا، ’میرے ساتھ دہرائیں، یہ ایشین گرومنگ گینگ نہیں بلکہ ’پاکستانی گرومنگ گینگ‘ ہیں۔

ایلون مسک نے اس کا جواب ’سچ‘ کے ساتھ دیا، جس سے اس تبصرے کی حمایت کا اشارہ ملتا ہے۔بھارتی میڈیا میں اس تبادلے کو بڑے پیمانے پر کوریج دی گئی اور ذرائع ابلاغ نے مسک کے موقف کی تعریف کرتے ہوئے اسے چترویدی کی جانب سے براڈ برش لیبل پر کی جانے والی تنقید سے ہم آہنگ قرار دیا ہے۔ایکس کے مالک کی ٹوئٹس نے اس بحث کو ہوا دی ہے جسے اکثر مخصوص نسلی برادریوں کو نشانہ بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے برطانیہ کی لیبر رکن پارلیمان ناز شاہ نے مسک کے بیان کو ’خطرناک‘ قرار دیا اور کہا کہ اس سے اختلافات میں اضافے کا امکان ہے۔ناز شاہ نے مسلم مخالف جذبات بھڑکانے کے لیے بدنام انتہائی دائیں بازو کی کارکن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا میرے لیے یہ خیال کہ ایلون مسک کسی ایسے شخص کی حمایت کر رہے ہیں، جسے ہماری عدالتوں نے ٹامی رابنسن جیسا مجرم قرار دیا ہے، آپ کو صرف یہ جاننے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ایلون مسک کی ترجیحات پر بھی سوال اٹھایا اور ان کی بیان بازی اور قابل عمل حل کے درمیان تعلق کو اجاگر کیا، جیس فلپس (لیبر ایم پی) نے مسک اور ان تمام لوگوں کے مقابلے میں گھریلو تشدد پر زیادہ کام کیا ہے، اگر مسک واقعی خواتین کے خلاف تشدد میں مدد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کا پلیٹ فارم اس بات چیت میں مشغول ہو۔ایلون مسک کے ملوث ہونے پر خدشات برطانوی وزیر داخلہ سائلا بریورمین کے بیان میں پاکستانی مردوں کے بارے میں ماضی کے بیانیے کی عکاسی کرتے ہیں، جنہوں نے پاکستانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مجموعی طور پر پاکستانیوں کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنا رہے ہیں.ایڈووکیسی گروپوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانیے خاص طور پر برطانیہ جیسے کثیر الثقافتی معاشروں میں ’تقسیم کو بھڑکانے کا خطرہ‘ ہیں۔

ناز شاہ نے اس طرح کی بیان بازی کے وسیع تر مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے تفرقہ انگیز بیانیوں سے پیدا ہونے والے تشدد کے خطرات کی طرف اشارہ کیا کہ ’یہ بہت حقیقی ہے‘، انہوں نے خبردار کیا کہ تقسیم اور نفرت کی آگ بھڑکانے کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں، جیسا کہ ہم نے کرائسٹ چرچ کی مسجد حملوں جیسے سانحات میں دیکھا ہے، یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔نیٹ ورک آف سکھ آرگنائزیشنز (این ایس او) جیسی تنظیمیں طویل عرصے سے ان مسائل پر بات کرنے میں زیادہ درستگی کی وکالت کرتی رہی ہیں، این ایس او نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ ایشین گرومنگ گینگ جیسی مبہم اصطلاحات سے ہونے والے نقصانات جو وسیع تر جنوبی ایشیائی برادریوں کو غیر منصفانہ طور پر ملوث کرتے ہیں۔این ایس او نے ایک بیان میں کہا کہ اس اصطلاح میں جائز درستگی کی ضرورت ہے، لیکن یہ بھی ذمہ داری ہے کہ تقسیم اور نفرت کو فروغ دینے سے گریز کیا جائے۔

جیسے جیسے یہ بحث آگے بڑھ رہی ہے، ایلون مسک کے ریمارکس کے ناقدین تفرقہ انگیز تبصروں کے بجائے منظم حل پر زیادہ توجہ دینے پر زور دے رہے ہیں۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایلون مسک جیسی بااثر شخصیات اپنے بڑے پلیٹ فارم کے ذریعے نادانستہ طور پر نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو بڑھا وا دے سکتی ہیں، جو جرائم سے نمٹنے اور متاثرین کی مدد کرنے کی بامعنی کوششوں سے محروم کر دیتی ہیں۔ایم پی ناز شاہ نے خبردار کیا کہ ہمیں حقائق، اعداد و شمار اور ایسے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو تمام کمزور لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں، نا کہ مخصوص گروہوں کو غیر ضروری طور پر نشانہ بنانے پر توجہ دی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے