دہشتگردوں کے لئے پینٹ کوٹ کا معجزہ
احمد الشرع وہ نیا نام ہے جو ان دنوں تکفیری دہشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے رکھا ہوا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جو کچھ عرصہ پہلے دہشت گرد گروہ القاعدہ کا سرگرم رکن تھا اور امریکہ نے اس کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال رکھا تھا اور اس کی گرفتاری کے لیے دس ملین ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔ وہی جولانی جس نے تقریباً 17 دن پہلے ایک طے شدہ سازش کے تحت جس کی منصوبہ بندی کئی سال پہلے امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے کر رکھی تھی، شام پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ ابو محمد الجولانی کو شام کی تھکی ہوئی اور مایوس فوج کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یوں اس نے ترکی سمیت کچھ ممالک کی بھرپور سیاسی، مالی اور لاجسٹک حمایت کے ذریعے دمشق پر قبضہ کر لیا۔ شام کے حالات سے عوام کی شدید ناراضگی اور ابتر انتظامی صورتحال نے دشمن طاقتوں کی جانب سے وسیع نفسیاتی جنگ کے ساتھ صدر بشار اسد حکومت کی سرنگونی کا مقدمہ فراہم کیا اور یوں 37 دہشت گرد گروہوں کا اتحاد ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں کامیاب ہو گیا۔
ابھی شاید شام میں بشار اسد حکومت کے خاتمے کی تمام وجوہات پوری طرح واضح نہیں ہوئیں اور دنیا اور خطے میں اس اہم سیاسی تبدیلی کے اسباب واضح نہیں ہیں لیکن شام میں نئی حکومت برسراقتدار آنے کے ابتدائی دنوں میں ہی مختلف ممالک جیسے ترکی، امریکہ، سعودی عرب، قطر اور اردن کے حکمرانوں کی دمشق آمدورفت اور کچھ اماراتی حکمرانوں کی جانب سے شام کی نگران حکومت سے ٹیلیفونک رابطوں سے بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے بہت سے درپردہ عوامل آشکار ہو رہے ہیں۔ البتہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے شام کے مختلف حصوں پر مسلسل جارحانہ حملے اور شام کی دفاعی، نیوی، ایئرفورس اور حتی آرمی کی اہم تنصیبات کی مکمل نابودی اور صیہونی فوج کی شام کے اندر پیشقدمی اور غاصبانہ قبضہ نیز صیہونی حکمرانوں کی جانب سے 1974ء کی قرارداد کالعدم قرار دے دینا بذات خود ایک انتہائی افسوسناک امر ہے جس میں خطے کے مختلف ممالک اور قوموں، خاص طور پر اسلامی مزاحمتی بلاک کیلئے بہت سے سبق اور پیغامات پائے جاتے ہیں۔
دوسری طرف یہی جولانی جو "احمد الشرع” بن گیا ہے اور امریکہ نے اس کی گرفتاری پر لگایا گیا دس ملین ڈالر کا انعام واپس لے لیا اور اور اس کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے باہر نکال دیا ہے، گویا داڑھی چھوٹی کرنے اور پینٹ کوٹ اور ٹائی لگانے نے اس کے حق میں معجزہ کر ڈالا ہے۔ اب وہی جولانی جو القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہ میں سرگرم رہ چکا ہے، امریکہ، ترکی، قطر، اردن، متحدہ عرب امارات اور دیگر کئی ممالک کے نمائندے اس سے مذاکرات کرنے آتے ہیں۔ یہ شخص کبھی بھی خود کو لیڈر یا کمانڈر کہلانے کا حقدار نہیں ہے بلکہ وہ ایک دہشت گرد گروہ کا سرغنہ ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بالفرض یہ جولانی شام کی حق خود ارادیت اور ارضی سالمیت کی بقا میں کامیاب ہو جاتا ہے اور بیرونی طاقتوں کو ملک سے نکال باہر کرتا ہے اور آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد بھی کروا لیتا ہے اور عوام کی مرضی کی حکومت برسراقتدار آ جاتی ہے اور شام کی عوام موجودہ اقتصادی بحران سے نجات پا لیتے ہیں اور عوام کے اندر سے مایوسی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں خودمختاری، عزت اور سلامتی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے تو اس کا نام تاریخ اور خطے میں باقی رہ جائے گا۔
لیکن شام کے موجودہ حالات اور مسائل نیز امریکہ، غاصب صیہونی رژیم اور ترکی کے توسیع پسندانہ عزائم کے پیش نظر مذکورہ بالا آرزوئیں پوری ہونا بہت مشکل دکھائی دیتی ہیں۔ البتہ یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ ابو محمد الجولانی، جو کل القاعدہ کا دہشت گرد تھا اور آج پینٹ کوٹ پہن کر سفارتکار بن گیا ہے، کے سیاسی، مالی اور لاجسٹک حامی کچھ حد تک عوام کے فلاح و بہبود پر بھی توجہ دیں گے تاکہ یہ ظاہر کر سکیں گذشتہ حکومت سو فیصد قصور وار تھی۔ لیکن یہ اقدامات بھی بہت حد تک محدود ہوں گے اور عارضی طور پر انجام پائیں گے۔ امریکہ، اسرائیل اور ترکی شام کو تین حصوں میں بانٹنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے پینٹ کوٹ والے دہشت گردوں کے ذریعے جو مشترکہ ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے وہ شام کو اسلامی مزاحمت سے دور کرنا ہے۔ البتہ وقت ثابت کر دے گا کہ وہ یہ مقصد حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں کیونکہ عنقریب شام میں نئی مزاحمتی گروہ جنم لیں گے اور وہاں ایک نئی مزاحمتی تحریک معرض وجود میں آئے گی۔