بائیڈن انتظامیہ کا عدالت سے نائن الیون کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کی ڈیل روکنے کا مطالبہ

379722-1178703614.jpg

بائیڈن انتظامیہ نے منگل کو ایک وفاقی عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ 9/11 حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ، خالد شیخ محمد، اور دیگر دو ملزمان کے ساتھ طے شدہ معاہدے کو روک دے، کیونکہ کہ اس معاہدے کے نتیجے میں یہ ملزمان مقدمے میں سزائے موت سے بچ جائیں گے۔امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، محکمہ انصاف نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک وفاقی عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ اگر خالد شیخ محمد اور 11 ستمبر 2001 کے حملوں میں ملوث دو دیگر ملزمان کی جرم قبول کرنے کی درخواستوں کو منظور کر لیا گیا، تو حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔درخواست میں کہا گیا کہ ’حکومت کو عوامی مقدمے اور ان تین افراد کے خلاف سزائے موت کی درخواست کرنے کا موقع نہیں ملے گا، جن پر ہزاروں افراد کی موت کا باعث بننے والے ایک خوفناک قتل عام کا الزام ہے، جس نے ملک اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔یہ معاہدہ محکمہ دفاع نے کیا تھا اور اس کی منظوری دی تھی، تاہم بعد میں اس سے انکار کر دیا گیا۔

ملزمان کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ قانونی طور پر نافذ ہو چکا ہے اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، جنہوں نے اس معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوششیں شروع کیں، نے بہت دیر سے یہ قدم اٹھایا۔جب اپیل منگل کو دائر کی گئی، تو القاعدہ کے حملوں میں مارے جانے والے تقریباً 3,000 افراد کے کچھ اہل خانہ پہلے ہی گوانتانامو، کیوبا میں امریکی بحری اڈے پر موجود تھے تاکہ جمعے کو خالد شیخ محمد کے مقررہ اقبالِ جرم کو سن سکیں۔باقی دو افراد، جن پر 9/11 میں کم اہم کردار کا الزام تھا، اگلے ہفتے اپنے اقبالی بیان دینے والے تھے۔اس معاہدے پر اہل خانہ میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مقدمے کی سماعت اور قانونی و لاجسٹک مشکلات کا سامنا کرنے والے استغاثہ کے لیے یہ بہترین حل ہے، جبکہ دوسروں نے مقدمے کی سماعت کا مطالبہ کیا اور انہیں امید تھی کہ ملزمان کو سزائے موت دی جائے گی۔کچھ قانونی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس کیس سے پیدا ہونے والے قانونی مسائل، جن میں گرفتاری کے بعد سی آئی اے کی حراست میں ان افراد پر کیے گئے تشدد شامل ہیں، ممکنہ طور پر ان عمر رسیدہ قیدیوں کو کسی فیصلے یا ممکنہ سزا سے بچا سکتے ہیں۔

فوجی استغاثہ نے رواں موسم گرما میں متاثرین کے اہل خانہ کو مطلع کیا تھا کہ گوانتانامو کی نگرانی کرنے والے پینٹاگون کے ایک سینئر اہلکار نے دو سال سے زائد عرصے کے مذاکرات کے بعد درخواست کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ فوجی استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ’حتمی اور انصاف کا بہترین راستہ‘ ہے۔لیکن بعض خاندان کے افراد اور رپبلکن قانون سازوں نے اس معاہدے اور اسے طے کرنے پر بائیڈن انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔لائیڈ آسٹن نے اگست کے بعد سے اس معاہدے کو ختم کرنے کے لیے ناکام کوششیں کی ہیں اور کہا ہے کہ 11 ستمبر کی سازش جیسے سنگین حملے میں سزائے موت کا فیصلہ صرف وزیر دفاع کو کرنا چاہیے۔گوانتانامو کے ایک فوجی جج اور فوجی اپیل پینل نے ان کوششوں کو رد کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ گوانتانامو کے لیے پینٹاگون کے ایک سینیئر عہدیدار کی جانب سے منظوری کے بعد ان کے پاس معاہدے کو ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔دفاعی وکلا کا کہنا ہے کہ معاہدے کی درخواست کو لائیڈ آسٹن کے اپنے حکام اور فوجی پراسیکیوٹرز نے منظور کیا تھا اور ان کی مداخلت انصاف کے نظام میں غیر قانونی سیاسی مداخلت تھی۔

محکمہ انصاف نے منگل کو کہا کہ ’تھوڑی سی تاخیر سے ملزمان کو کوئی نقصان نہیں ہو گا، کیونکہ مقدمے کی پیروی 2012 سے جاری ہے اور درخواست کے معاہدوں کے نتیجے میں ممکنہ طور پر وہ طویل قید کی سزا کاٹیں گے، جو ممکنہ طور پر تاحیات ہو سکتی ہے۔‘حکومت نے دلیل دی کہ ’اس اہم مقدمے میں حکومت کی درخواست کے جواز پر غور کرنے کی غرض سے عدالت کی تھوڑی سی تاخیر سے مدعا علیہان کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔‘امریکی محکمہ انصاف نے فوجی کمیشن کے جج کے فیصلے پر تنقید کی، جس میں کہا گیا کہ جج نے ’دفاعی سیکریٹری کے اختیار کو نا مناسب طور پر محدود‘ کیا۔اس کیس کو ’منفرد قومی اہمیت‘ کا حامل قرار دیتے ہوئے، حکومت نے کہا کہ اس اختیار کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے غیر معمولی ریلیف کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔