نئی شامی فورسز اور کردوں میں خونریز تصادم، سینکڑوں ہلاک

kurd.jpg

شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) اور ترکیہ کے وفادار دھڑوں کے درمیان شمال مشرقی شام میں کئی ہفتوں سے جھڑپیں جاری ہیں۔ذرائع نے منبج کے جنوبی اور مشرقی دیہی علاقوں میں ایس ڈی ایف اور دھڑوں کے درمیان گزشتہ گھنٹوں کے دوران وقفے وقفے سے جھڑپوں کے پھوٹ پڑنے کی اطلاع دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایس ڈی ایف نے اعلان کیا ہے کہ ترکیہ کے لڑاکا طیاروں نے تشرین ڈیم اور دیر حافر شہر پر 8 حملے کیے ہیں۔انہوں نے وضاحت کی ہے کہ 23 دنوں سے جاری جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 220 ہو گئی ہے۔ مرنے والوں میں 62 ایس ڈی ایف فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔ گزشتہ نومبر کے آخر سے کرد اکثریتی فورسز کو انقرہ کی حمایت یافتہ دھڑوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ حملے ملک کے شمال مشرق کے علاقوں میں الطبقۃ شہر اور شمال میں الرقہ گورنریٹ کے مرکز اور دریائے فرات کے مغرب میں الخفسہ اور مسکہ کے قصبوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں۔ ایس ڈی ایف الحسکہ کے تمام گورنریوں اور دیر الزور گورنری کے شمالی مشرقی دیہی علاقوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ترکیہ کی سرحد کے قریب ایس ڈی ایف کی موجودگی انقرہ کو غصہ دلاتی ہے۔ انقرہ نے ایک سے زیادہ مرتبہ دھمکی دی ہے کہ وہ ان قوتوں کو ختم کر دیں گے جب تک کہ وہ اپنے ہتھیار نہ ڈال دیں۔

ترکیہ نے خاص طور پر تنازع کے سالوں کے دوران ان علاقوں سے شامی فوج کے بتدریج انخلا کا فائدہ اٹھایا تھا۔ اس نے گزشتہ 8 دسمبر 2024 سے قبل فوج کے حالیہ انخلا اور سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے دوران بھی اپنی موجودگی کو مضبوط کیا۔حالیہ جھڑپیں آج دمشق میں ایس ڈی ایف اور “نئی پولیٹیکل انتظامیہ” کے درمیان ملاقاتوں اور مشاورت کے بعد ہوئی ہیں۔ نئی انتظامیہ کے رہنما احمد الشرع نے اس سے قبل ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایس ڈی ایف سمیت شام کے تمام مسلح دھڑے اپنے ہتھیار حوالے کر دیں گے اور وزارت دفاع میں شامل ہو جائیں گے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔