شام: تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں سے اقلیتی گروپ تشویش میں مبتلا

1421134_9009975_2_updates.jpg

انسانی حقوق کے رہنماؤں کی طرف سے شام کی نئی حکومت کی جانب سے نصاب میں تبدیلیوں کو ’شدت پسندانہ‘ اور مذہبی اقلیتوں کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ قرار دیے جانے کے بعد ان تبدیلیوں کا محتاط دفاع کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان ترامیم کا اعلان بدھ کے روز عبوری قیادت کی وزارت تعلیم کے فیس بک پیج پر کیا گیا تھا، یہ حیات تحریر الشام کی قیادت میں فورسز نے طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والے بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد سامنے آیا۔

نصاب میں کی جانے والی تبدیلیوں میں خواتین اور محبت سے متعلق شاعری کو ختم کرنا شامل ہے۔ قومی ترانے کو بھی نصابی کتب سے ہٹا دیا گیا ہے، جسے وزارت نے ’(الاسد) حکومت کا ترانہ‘ قرار دیا ہے۔اسی طرح قوم پرستانہ جملہ ’اپنے وطن کے دفاع میں جان قربان کرنا‘ کو ’اللہ کی خاطر جان قربان کرنا‘ سے بدل دیا گیا ہے۔وزیر تعلیم نذیر القادری نے ٹیلی گرام پر شیئر کیے گئے بیان میں کہا کہ تبدیلیوں کا مقصد صرف معزول صدر کے حوالے سے ’تعریفی کلمات‘ کو ختم کرنا اور قرآن پاک کی غلط تشریحات کو ٹھیک کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’تمام شامی اسکولوں میں نصاب اس وقت تک پہلی والی شکل میں برقرار رہے گا جب تک کہ ان کا جائزہ لینے اور آڈٹ کرنے کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل نہیں دی جاتیں۔‘نذیر القادری نے کہا کہ ’ہم نے صرف ان حصوں کو حذف کرنے کا حکم دیا ہے جو بشار الاسد کی معدوم حکومت کی تعریف کرتے ہیں، اور ہم نے معدوم حکومت کے جھنڈے کے بجائے شامی انقلاب کے جھنڈے کی تصاویر کو اپنایا ہے۔‘ان تبدیلیوں نے تنازع کو جنم دیا ہے اور بہت سے لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔

سماجی کارکن اور صحافی شہریار خلیل نے فیس بک پوسٹ میں تبدیلیوں پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ’انتہا پسند نظریات پر مبنی تعلیم ایسے افراد کو تشکیل دے سکتی ہے جن کے نظریات علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں۔‘شام کے نئے حکام کو اسد خاندان کی پانچ دہائیوں کی حکمرانی میں تشکیل پانے والے ریاستی اداروں کی تعمیر نو کے مشکل کام کا سامنا ہے، لیکن کچھ شامیوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے عبوری اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔شہریار خلیل نے کہا کہ ’حیات تحریر الشام کی نگرانی میں نصاب کی تبدیلی صرف ایک تعلیمی خطرہ نہیں ہے، بلکہ شام کے سماجی خدوخال اور مستقبل کے لیے ایک طویل مدتی خطرہ ہے۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔