فلسطینی اتھارٹی نے الجزیرہ کی نشریات پر پابندی عائد کر دی

02110818abb08a2.jpg

فلسطینی اتھارٹی نے مقبوضہ مغربی کنارے میں ’اشتعال انگیز مواد‘ دکھانے پر قطر کے الجزیرہ ٹی وی کی نشریات معطل کردیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق وزارتی کمیٹی (جس میں ثقافت، داخلہ اور مواصلات کی وزارتیں شامل ہیں) نے ملک میں تنازعات کو ہوا دینے والے مواد اور رپورٹس کو نشر کرنے پر براڈکاسٹر کے آپریشنز معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔الجزیرہ ٹی وی کو گزشتہ ہفتے اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں جنین کیمپ میں فلسطینی سیکیورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان کئی ہفتوں سے جاری تعطل کی کوریج پر فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یاد رہے کہ مئی 2024 میں اسرائیل میں قطر کے ملکیتی نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مقامی آپریشنز کو بند کرنے کے حکومتی فیصلے کے بعد اسرائیلی پولیس نے یروشلم میں ہوٹل کے کمرے پر چھاپہ مارا تھا، اس کمرے کو نشریاتی ادارہ اپنے ڈی فیکٹو آفس کے طور پر استعمال کرتا تھا۔اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ نے اس بنیاد پر نیٹ ورک کو بند کر دیا تھا کہ جب تک کہ غزہ میں جنگ جاری ہے، قطری ٹیلی ویژن نیٹ ورک قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔اس سے قبل 2015 میں بھارت نے کئی پروگراموں میں متعدد مرتبہ ملک کا غلط نقشہ دکھانے پر الجزیرہ کی نشریات پر 5 دنوں کی پابندی لگا دی تھی۔

بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات نے بتایا تھا کہ 2013 اور 2014 میں 12 مرتبہ غلط نقشے دکھائے گئے، جس پر قطر سے کام کرنے والے چینل کو 22 اپریل سے 27 اپریل تک پابندی کا سامنا رہے گا۔بھارتی حکومت کے مطابق الجزیرہ نے جو نقشے دکھائے تھے، ان میں بعض علاقے بھارت حدود سے غائب تھے، اور ایسا کرتے ہوئے چینل نے بھارتی براڈکاسٹنگ کے قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔دکن کرانیکلز نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کچھ نقشوں میں اندامان جزائر اورلکشادویپ نہیں دکھائے گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔