سوئٹزرلینڈ میں برقعے پر متنازع پابندی کا نفاذ آج سے شروع

379529-1454371462.jpg

سوئٹزرلینڈ میں عوامی مقامات پر چہرے کو ڈھانپنے پر متنازع پابندی، جسے ’برقعہ پابندی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یکم جنوری سے نافذ العمل ہو گئی ہے۔اس قانون کو 2021 میں ایک ریفرنڈم کے بعد منظور کیا گیا تھا اور مسلم تنظیموں کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی تھی۔یہ اقدام اسی جماعت کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جس نے 2009 میں نئے ​میناروں پر پابندی عائد کرنے کا اہتمام کیا تھا۔

مسلمان برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں، جیسے ایمنیسٹی انٹرنیشنل، نے اس پابندی کی منظوری پر تنقید کی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں اس پابندی کو ایک ’خطرناک پالیسی‘ قرار دیا تھا جو خواتین کے حقوق، بشمول اظہار رائے اور مذہب کی آزادی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ریفرنڈم کے بعد، سوئس پارلیمنٹ نے ستمبر 2023 میں چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی کے حوالے سے حتمی قانون سازی کی۔ نومبر 2024 میں حکومت نے کہا تھا کہ یہ پابندی یکم جنوری 2025 سے نافذ العمل ہو گی۔

سوئٹزرلینڈ کی حکومتی فیڈرل کونسل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے پابندی کا آغاز طے کر دیا ہے اور جو کوئی بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا اسے 1,000 سوئس فرینک (تقریباً تین لاکھ پاکستانی روپے) تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔سوئٹزرلینڈ اب پڑوسی ملک فرانس اور آسٹریا سمیت پانچ دیگر یورپی ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں اس طرح کی پابندی عائد ہے۔ واضح رہے کہ اس قانون میں سکیورٹی، موسم یا صحت کی وجوہات کی بنا پر چہرے کو ڈھانپنے کی اجازت ہو گی۔ فنکارانہ اور تفریحی مقاصد اور اشتہارات کے لیے بھی اس کی اجازت ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔