غزہ میں جاری جنگ کے دوران بیت لحم میں اداسی کے ماحول میں کرسمس
غزہ میں جاری جنگ کے سائے میں مغربی کنارے میں واقع حضرت عیسی کی جائے پیدائش بیت لحم میں اس سال بھی کرسمس کا تہوار اداسی کے ماحول میں منایا جائے گا۔کرسمس کے موقع پر مقبوضہ علاقے کے فلسطینی قصبے میں جوش و خروش اور خوشی جو عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہیں نظر نہیں آ رہی۔گزشتہ سالوں میں دیکھی گئی تہوار کی روشنیاں اور دیوہیکل درخت بھی جو عام طور پر مینجر اسکوائر کو سجاتے تھے منظر سے غائب ہیں۔اسی طرح جوان لوگوں کے علاقے میں مارچ کرنے والے بینڈز کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں اور نہ ہی یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس مقام پر غیر ملکی سیاحوں کے پہلے کی طرح ہجوم ہوں گے۔فلسطینی سیکیورٹی فورسز نے نیٹیویٹی چرچ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کی پیدائش ہوئی تھی۔صرف ایک کارکن کچرے کے ڈھیروں کو صاف کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
اس موقع پر قصبے کے میئر انٹون سلمان نے کہا کہ بیت المقدس کا پیغام ہمیشہ امن اور امید کا پیغام رہا ہے۔”ان دنوں، ہم دنیا کو اپنا پیغام بھی بھیج رہے ہیں: امن اور امید کا، لیکن اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ دنیا کو فلسطینی عوام کے طور پر ہمارے مصائب کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے۔”کرسمس کے تہوار کی روایتی سرگرمیوں کی منسوخی قصبے کی معیشت کے لیے ایک شدید دھچکا ہے۔بیت لحم کی آمدنی کا تقریباً 70 فیصد حصہ سیاحت سے حاصل ہوتا ہے۔ تقریباً ساری آمدنی کرسمس کے موسم میں ہوتی ہے۔میئر سلمان نے کہا کہ علاقے میں بیروزگاری تقریباً 50 فیصد پر منڈلا رہی ہے جو کہ مغربی کنارے کے باقی حصوں میں 30 فیصد بے روزگاری سے زیادہ ہے۔
فلسطینی وزارت سیاحت کے ترجمان جیریز قمصیہ نے بتایا کہ شہر میں کرونا کی عالمی وبا سے قبل سال 2019 میں 20 لاکھ زائرین یہاں آئے تھے۔اس کے مقابلے میں رواں سال میں زائرین کی تعداد 100,000 سے بھی کم رہی ہے۔بیت اللحم عیسائیت کی تاریخ کا ایک اہم مرکز ہے۔ تاہم، اس ارض مقدس میں پھیلے ہوئے تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کی آبادی میں مسیحی ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اسرائیل میں تقریباً 182,000 مسیحی آباد ہیں، مغربی کنارے اور یروشلم میں 50,000 جب کہ غزہ میں 1,300 عیسائیت کے پیرو کار بستے ہیں۔