آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی "حشد الشعبی” کے انحلال کی مخالفت
رپورٹ کے مطابق، لبنانی اخبار "الاخبار” نے بغیر کسی کا نام لئے ایک عراقی ذریعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ عراقی حکومت کو متعدد بار بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں کی طرف سے درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں الحشد الشعبی کے انحلال اور عراقی مقاومتی گروہوں کے اسلحہ کو حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ایک دوسرے عراقی ذریعے نے "الاخبار” کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ برائے عراق "محمد الحسان” نے دو بار نجف اشرف کا دورہ کیا تاکہ آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کریں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد آیت اللہ سیستانی سے الحشد الشعبی کے انحلال یا اسے دیگر سیکیورٹی وزارتوں میں ضم کرنے کے لیے فتویٰ طلب کرنا تھا، کیونکہ یہ تنظیم خود آیت اللہ سیستانی کے فتوے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔
عراقی حکومت کے قریبی پہلے عراقی ذریعہ نے الاخبار سے گفتگو کے دوران کہا: الحشد الشعبی کو منحل کرنے کا معاملہ دراصل ایک مغربی خواہش ہے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور خاص طور پر یہ مسئلہ امریکہ کی طرف سے اٹھایا گیا جو ہمیشہ عراقی گروہوں (مقاومتی گروہوں) کے خلاف عدم اطمینان کا اظہار تھا۔رپورٹ کے مطابق پہلی ملاقات میں آیت اللہ سیستانی نے محمد الحسان کو ملاقات کا موقع دیا اور عراق کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
تاہم ایک ماہ بعد ہونے والی دوسری ملاقات میں آیت اللہ سیستانی نے اس سے خود ملاقات سے انکار کر دیا اور اپنے بیٹے سید محمد رضا کو اس سے ملاقات کے لیے بھیجا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ برائے عراق نے آیت اللہ سیستانی سے پہلی ملاقات میں الحشد الشعبی کو منحل کرنے کی درخواست کی جو اس شیعہ مرجع تقلید نے ردّ کر دی اور پھر دوسری ملاقات میں آیت اللہ سیستانی کا اقوام متحدہ کے نمائندے سے خود نہ ملنا اور اپنے بیٹے کو بھیجنا اس بات کی واضح علامت ہے کہ وہ الحشد الشعبی کے انحلال کے مطالبے سے متفق نہیں ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔