آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی "حشد الشعبی” کے انحلال کی مخالفت

2451611.jpg

رپورٹ کے مطابق، لبنانی اخبار "الاخبار” نے بغیر کسی کا نام لئے ایک عراقی ذریعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ عراقی حکومت کو متعدد بار بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں کی طرف سے درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں الحشد الشعبی کے انحلال اور عراقی مقاومتی گروہوں کے اسلحہ کو حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ایک دوسرے عراقی ذریعے نے "الاخبار” کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ برائے عراق "محمد الحسان” نے دو بار نجف اشرف کا دورہ کیا تاکہ آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کریں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد آیت اللہ سیستانی سے الحشد الشعبی کے انحلال یا اسے دیگر سیکیورٹی وزارتوں میں ضم کرنے کے لیے فتویٰ طلب کرنا تھا، کیونکہ یہ تنظیم خود آیت اللہ سیستانی کے فتوے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔

عراقی حکومت کے قریبی پہلے عراقی ذریعہ نے الاخبار سے گفتگو کے دوران کہا: الحشد الشعبی کو منحل کرنے کا معاملہ دراصل ایک مغربی خواہش ہے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور خاص طور پر یہ مسئلہ امریکہ کی طرف سے اٹھایا گیا جو ہمیشہ عراقی گروہوں (مقاومتی گروہوں) کے خلاف عدم اطمینان کا اظہار تھا۔رپورٹ کے مطابق پہلی ملاقات میں آیت اللہ سیستانی نے محمد الحسان کو ملاقات کا موقع دیا اور عراق کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

تاہم ایک ماہ بعد ہونے والی دوسری ملاقات میں آیت اللہ سیستانی نے اس سے خود ملاقات سے انکار کر دیا اور اپنے بیٹے سید محمد رضا کو اس سے ملاقات کے لیے بھیجا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ برائے عراق نے آیت اللہ سیستانی سے پہلی ملاقات میں الحشد الشعبی کو منحل کرنے کی درخواست کی جو اس شیعہ مرجع تقلید نے ردّ کر دی اور پھر دوسری ملاقات میں آیت اللہ سیستانی کا اقوام متحدہ کے نمائندے سے خود نہ ملنا اور اپنے بیٹے کو بھیجنا اس بات کی واضح علامت ہے کہ وہ الحشد الشعبی کے انحلال کے مطالبے سے متفق نہیں ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔