ویتنام کی مسلم ’سلطنت چمپا‘ کی داستانِ عروج و زوال
ویتنام میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ اس خطے میں اسلام عرب تاجروں اور مبلغین کے ذریعے متعارف ہوا۔ جب کہ چامپا سلطنت(Champa Kingdom) کے دور میں اسلام کو مزید فروغ ملا۔چامپا سلطنت بحیرہ جنوبی چین سے منسلک ہونے کی وجہ سے تجارتی اور ثقافتی اہمیت کی حامل تھی۔اس سلطنت کا رقبہ مختلف اوقات میں مختلف رہا، یہ سلطنت موجودہ ویتنام کے جنوبی اور وسطی حصوں پرمشتمل تھی۔اس سلطنت کا مجموعی رقبہ اس کے عروج کے دوران 8 تا 10 ہزار مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا، اس میں موجودہ ویتنام کے جنوبی شہر مئی ٹو (Mỹ Tho) اور سائیگون (موجودہ ہوشی منہ) بھی شامل تھے۔
سلطنت چامپا اور اسلام:
پو ساہ انو (po sah inu) چامپا کے مشہور مسلم حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 17ویں صدی کے دوران اسلام قبول کیا اور اپنی ریاست میں اسلامی قوانین اور اسلامی روایات کو فروغ دیا۔انہوں نے اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔یہ حقیقت ہے کہ چامپا میں اسلامی ریاست باضابطہ طور پر قائم نہیں ہوئی، البتہ پو ساہ نو جیسے حکمرانوں کے اقدامات نےاسلام کی جڑیں مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام شاہی دربار سے ہوتا معیشت ومعاشرت سمیت معمولات زندگی میں سرایت کر گیا۔ریاست میں اسلامی فن تعمیر کا آغاز ہوا، مساجد اور مدارس کا قیام عمل میں لاگیا۔ اسلامی علوم و ثقافت کو فروغ نصیب ہوا، اور اسلامی قوانین کو رائج کیا گیا۔چامپا حکمرانوں اور اشرافیہ نے اسلامی فن کتابت اپنایا، ان کے کتبے عربی اور جاوی رسم الخط کا امتزاج تھے۔ ان حکمرانوں نے اسلامی دنیا کےعلماء کو دعوت دی تاکہ وہ ان علاقوں میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں۔
چامپا سلطنت کا تجارتی اور ثقافتی پس منظر:
چامپا سلطنت بحر ہند کے تجارتی راستوں پر واقع تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اہم جغرافیائی محل وقوع کے باعث اسے سمندری تجارت میں اہمیت حاصل تھی۔ چامپا کے تجارتی راستے جنوب مشرقی ایشیا، چین، ہندوستان اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ ان تجارتی راستوں پر مختلف ثقافتیں، مذاہب اور سامان کا تبادلہ ہوتا رہا۔اس زمانے میں بحرین ایک اہم تجارتی مرکز تھا، جو جزیرہ نما عرب، ایران، ہندوستان اور مشرقی افریقہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کے لیے مشہور تھا۔واضح رہے کہ چامپا سلطنت اوربحرین کے درمیان تجارتی تعلقات کے بارے میں کچھ اشارے اور مفروضے ضرور ہیں، لیکن ان تعلقات کے ٹھوس اور مستند تاریخی شواہد محدود ہیں۔ دونوں خطوں کے درمیان تجارتی روابط کے امکان کی تائید کی جاتی ہے، اگرچہ ان کے متعلق وثوق سے معلومات فراہم کرنا مشکل ہے۔
مسلم دنیا سے تجارتی تعلقات:
چامپا سلطنت کی بندرگاہیں ہوئی آن (Hoi An) اور وجایا(Vijaya)، بحر ہند اور جنوبی چین کے سمندر کے اہم تجارتی مراکز تھیں۔ مسلمان تاجر ان بندرگاہوں پر اپنا تجارتی سامان، مثلاَ مسالے، ریشم، خوشبوئیں، اور جواہرات لاتے اور وہاں سے چامپا کی مصنوعات (جیسے چمڑے، عود وغیرہ) خریدتے تھے۔مسلمان تاجروں کی وجہ سے ویتنام اور دیگر مسلم ممالک کے درمیان تجارتی روابط مضبوط ہوئے۔ آثار قدیمہ میں عربی خطاطی والے سکے اور اسلامی طرز کے برتن دریافت ہوئے ہیں، جو تجارتی تعلقات کا ثبوت ہیں۔عباسی و فاطمی خلافت اور چامپا سلطنت کے درمیان باہمی تعلقات پر براہ راست دستاویزات یا تفصیلی تاریخی شواہد دستیاب نہیں تاہم اسلامی تاریخ، تجارت، اور ثقافتی روابط کے تناظر میں ان کے بلاواسطہ تعلقات کے آثار اور ذکر ملتا ہے۔
سلطنت چامپا اور مغل سلطنت:
آئین اکبری:
’آئین اکبری‘ عہد اکبری کے درباری مؤرخ ابو الفضل ابن مبارک کی تصنیف ہے۔ یہ1590 سے 1595 عیسوی کے درمیان مکمل ہوئی۔ اس میں مغل سلطنت کی اقتصادی، ثقافتی، اور تجارتی پالیسیوں کا ایک جامع ریکارڈ موجود ہے۔آئینِ اکبری میں چامپا سلطنت کا براہِ راست ذکر نہیں ہے۔ تاہم اس میں جنوب مشرقی ایشیائی خطے کے تجارتی تعلقات اور بحری راستوں کا مختصر ذکر موجود ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مغل سلطنت کا تعلق اس خطے کے ساتھ تجارتی مقاصد کے تحت تھا۔مغل سلطنت کی بندرگاہیں، خاص طور پر گجرات، سورات، اور بنگال، چامپا کے تاجروں کے لیے اہم مراکز تھیں۔ مغل سلطنت سے چامپا کو برآمد ہونے والی اشیا میں کپڑا (خاص طور پر بنگالی ریشم اور ململ)، مسالے، اور زیورات شامل تھے۔چامپا سے مغل سلطنت کو بھیجی جانے والی اشیاء میں خوشبویات اور قیمتی لکڑی شامل تھیں۔ چامپا میں ملنے والے مغلیہ طرز کے سکے اور مصنوعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں سلطنتوں کے درمیان اچھے تجارتی تعلقات تھے۔مغل سلطنت کے حکمران، خاص طور پر اکبر اور جہانگیر، نے جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔
سلطنت چامپا اورخلافتِ عثمانیہ:
چامپا سلطنت اورسلطنت عثمانیہ کے درمیان تجارتی یا سفارتی روابط پر براہِ راست جامع دستاویزی ثبوت دستیاب نہیں، تاہم جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں اسلامی دنیا کے مشترکہ تجارتی نیٹ ورک کی وسعت اور اثر و رسوخ کے پیش نظر اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کے مابین بلاواسطہ روابط موجود رہے ہوں گے۔سلطنت عثمانیہ مسلم دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی،جو خلافتِ اسلامیہ کے تحت مسلم دنیا کے مختلف حصوں کوآپس میں مضبوطی سے جوڑے ہوئے تھی۔ سلطنت عثمانیہ نے اسلامی دنیا کو متحد رکھنےکے لیےمسلم ریاستوں کےساتھ سفارتی تعلقات قائم رکھے۔عثمانی خلافت کے اثر و رسوخ نے اسلامی دنیا میں علم و ثقافت کے پھیلاؤ کو فروغ دیا، جس کا اثرچامپا جیسے دور دراز علاقوں تک بھی محسوس کیا گیا۔ اگرچہ براہِ راست کوئی ریکارڈ موجود نہیں، لیکن اس دور میں علماء ومشائخ اور تاجروں کے ذریعے ثقافتی اور مذہبی معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا۔
چامپا سلطنت میں اسلامی دنیا کی بڑی خلافتوں کا براہِ راست اثر محدود تھا، لیکن تجارتی اور ثقافتی تعلقات کے ذریعے ان سلطنتوں کے بالواسطہ اثرات نمایاں ہیں۔ خاص طور پر عباسیہ اور فاطمی خلافت کے تجارتی اشیاء، مغل سلطنت کے زیورات اور ٹیکسٹائل، اورعثمانی خلافت کی طرز کی مساجد اور اسلامی تعلیمات کے اثرات، خاص طور پر قرآن کے تراجم اورقدیم قرآنی نسخے جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کے ذریعے چامپا پہنچے۔اسلام کو چامپا میں نمایاں حیثیت حاصل ہوئی۔ ان کے نام اور کارنامے زیادہ تر مقامی روایات، مسلم سیاحوں کی تحریروں، اور آثار قدیمہ کے ذریعے محفوظ ہیں۔
چامپا اور مسلم تاریخ دان:
مسلمان مؤرخ اور جغرافیہ دان ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ ابن خردابہ (متوفی 912 عیسوی) کی معروف تصنیف ’کتاب المسالک والممالک‘ میں چامپا سلطنت کا ذکر ملتا ہے۔ یہ کتاب اسلامی عہد کے جغرافیہ اور تجارتی راستوں کے بارے میں ایک اہم ماخذ سمجھی جاتی ہے۔اسی طرح ابو الحسن علی بن الحسین المسعودی-(896–956 عیسوی) اسلامی دنیا کے ایک مشہور مؤرخ، جغرافیہ دان، اور سیاح تھے۔ انہیں ’عربوں کا ہیروڈوٹس‘ کہا جاتا ہے،کیونکہ ان کی تصانیف میں تاریخ، جغرافیہ، ثقافت،اور مختلف اقوام و تہذیبوں کے بارے میں وسیع معلومات موجود ہیں۔المسعودی کی کتاب ’مروج الذہب و معادن الجوہر‘ میں چامپا کا ذکر موجود ہے۔ المسعودی نے چامپا کے باشندوں، ان کی ثقافتاور ان کے بحری تجارتی تعلقات کےبارے میں لکھا۔
ابوالفضل البیہقی (995–1077 عیسوی) مؤرخ اور نثرنگار ہیں۔ انہوں نے اپنی مشہور تصنیف ’تاریخِ بیہقی‘ میں دنیا کے مختلف علاقوں اوران کے سیاسی، سماجی، اور ثقافتی حالات کا ذکر کیا ہے۔ابوالفضل البیہقی نے چامپا سلطنت کا ذکر اس کے بحری تجارتی نیٹ ورک کے تناظرمیں کیا ہے۔ بیہقی کے مطابق چامپا میں دیگر تہذیبوں، خاص طور پر ہندوستان اور چین، کے اثرات موجود تھے۔انہوں نے ہندوستان اور مسلم دنیا کے تناظر میں چامپا سلطنت کی حکمت عملی اور بین الاقوامی تعلقات کا بھی مختصراً ذکر کیا ہے۔
ویتنامی مسلم خواتین
ابن جبیر (12ویں صدی عیسوی) نے اپنی کتاب رحلة ابن جبير (ابن جبیر کے سفرنامے) میں چامپا کا ذکر مختصر طور پر کیا ہے۔ تاہم اس کی اسلامی ثقافت کے اثرات اور تجارتی تعلقات پرروشنی ڈالی ہے۔ابن سعید المغربی (13ویں صدی عیسوی) نے اپنی ’کتاب الجغرافیہ‘ میں چامپا کو اسلامی دنیا کے تجارتی نقشے میں ایک اہم مقام کے طور پر پیش کیا اور اس کی جغرافیائی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔اسلامی دنیا کے مشہور سیاح ابن بطوطہ (1304-1369عیسوی) نے چامپا کا دورہ کیا اور اس سلطنت کے مسلم حکمرانوں، اسلامی ثقافت، اور تجارتی سرگرمیوں کا ذکر اپنے مشہورسفرنامے ’تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار‘ میں کیا ہے۔
مخدوم شیخ زین الدین بن عبدالعزیز ملیباری:
مخدوم شیخ زین الدین بن عبدالعزیز ملیباری (متوفی992 ہجری) نے اپنی تصنیف تاریخ تحفتہُ المجاہدین میں جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کے پھیلاؤ اور تجارتی تعلقات کا ذکر کرتے ہیں۔ اس میں چامپا سلطنت کا ذکر مختصر طور پر موجود ہے۔2017ء میں کتاب ’ ترک اور اسلامی دنیا کے جغرافیے میں چامپا‘، استنبول سے شائع ہوئی۔ اس کے مصنف معروف اسکالر پروفیسر رمضان شیسن ہیں۔ جو تاریخ و ثقافت اور اسلامی علوم پر اپنے علمی اور تحقیقی کاموں کے لیےعالمی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ کتاب چمپا کے جغرافیائی محل وقوع، جنوب مشرقی ایشیا میں اس کی اسٹریٹجک اہمیت، تہذیب و ثقافت خاص طور پر مسلم سلطنتوں اور خطوں، اسلامی تاجروں اور حکمرانوں کے ساتھ اس کے تعلقات کا احاطہ کرتی ہے۔یہ کتاب تاریخ کے تناظر میں چامپا سلطنت کے حتمی زوال، اس کی فوجی حکمت عملیوں اور ویتنام میں اس کے انضمام، اسلامی دنیا میں چمپا کے کرداراور چمپا میں اسلام کے اثر و رسوخ کا تذکرہ بھی کرتی ہے۔
زوال کے اسباب:
چامپا سلطنت کا زوال بتدریج ہوا۔ ویتنامی معاشرے میں کنفیوشین ازم، بدھ مت اور تاؤ ازم کےغالب ہونے کی وجہ سے اسلام کا دائرہ اثر محدود ہوگیا۔ مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔ چامپا نے اپنی سرحدی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے مزاحمت کی، لیکن اکثر نقصان اٹھانا پڑا۔
ویتنامی بادشاہت کے ساتھ تنازعات اور جنگیں:
ویتنامی بادشاہت دائی ویت(Dai Viet) یہ جنوب مشرقی ایشیا میں ایک قدیم ویتنامی سلطنت تھی جو مختلف ادوار میں چامپا سلطنت کے ساتھ جنگ و جدل میں مصروف رہی۔ دونوں سلطنتیں سیاسی، ثقافتی،اور جغرافیائی اثرورسوخ کے لیے ایک دوسرے کے حریف تھیں۔مؤرخین عام طور پر 1471 عیسوی کو چامپا سلطنت کے خاتمے کا اہم موڑ قرار دیتے ہیں۔ دراصل1471 ء میں دائی ویت کے بادشاہ لای تھانه ٹونگ (1460–1497) نے چامپا سلطنت کے دارالحکومت وجایا (موجودہ کُوِنهوں شہر) حملہ کیا۔یہ حملہ ایک منظم فوجی مہم تھی، جس کے نتیجے میں چامپا سلطنت کو فیصلہ کن شکست ہوئی۔ 1471 کی جنگ کے بعد چامپا کا علاقہ چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا، جن میں سے کچھ ویتنام کے کنٹرول میں آ گئیں، جبکہ باقی حصے بتدریج کمزور ہو کر ویتنامی ثقافت اور سیاست کے زیرِ اثر آئے اور پھر ضم ہو گئے۔
پانڈورنگا (Panduranga) بچ رہنے والے چامپا کی آخری آزاد ریاست تھی، جس پر ویتنام کا مکمل کنٹرول 1832 میں ہوا۔ اس وقت ویتنام کے نگوین خاندان کے بادشاہ منہ منگ (Minh Mạng) نے ایک وسیع انتظامی اصلاحات کے تحت چامپا کی باقیات کو ویتنام میں ضم کر دیا۔یہ واقعہ جنوب مشرقی ایشیا کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ آج چامپا سلطنت کے تباہ شدہ شہروں اور آثار قدیمہ میں ویتنامی جنگوں کے اثرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
اندرونی کمزوری اور سیاسی عدم استحکام:
چامپا کے حکمران خاندانوں کے درمیان اقتدار کے لیے لڑائیاں سلطنت کی اندرونی کمزوری کا باعث بنیں۔ مختلف علاقوں کے مقامی حکمرانوں نے مرکزی حکومت کے خلاف بغاوتیں کیں، جس سے سلطنت کی یکجہتی متاثر ہوئی۔ چامپا کی مرکزی حکومت طاقتور مقامی سرداروں کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہی، جس سے اندرونی اختلافات پیداہوئے۔ عرب اور چینی سیاحوں کی سفرناموں میں، خاص طور پر ابن بطوطہ اور المسعودی، چامپا کی داخلی کمزوریوں کا ذکر کرتے ہیں۔
معیشت کا زوال:
چامپا سلطنت کی معیشت سمندری تجارت پر انحصار کرتی تھی۔ 15ویں صدی کے بعد، یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی آمد اور سمندری راستوں میں تبدیلی نے چامپا کی تجارتی اہمیت کو کم کر دیا۔ مالاکا (Malacca) جیسے نئے تجارتی مرکز نے چامپا کی بندرگاہوں کو معاشی لحاظ سے پیچھے چھوڑ دیا۔مسلسل جنگوں اور قدرتی آفات نے چامپا کی زراعت، خاص طور پر چاول کی کاشت، کو متاثر کیا۔ چامپا کی بندرگاہوں اور زراعی نظام آثار آج بھی موجود ہیں۔چامپا کے مسلمانوں کو مختلف جنگوں کے باعث یا تو جلا وطن کر دیا گیا یا پھر انھیں اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا۔ مسلمان بڑی تعداد میں دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کمبوڈیا، ملائیشیا اور انڈونیشیا ہجرت کر گئے۔ (واضح رہے کہ آج کمبوڈیا،انڈونیشیا اورملائیشیا میں چام نسل کے مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو ایک اندازے کے مطابق 7 تا 8 لاکھ کے درمیان ہے)۔
ویتنامی مسلمانوں کا حال:
آج ویتنام میں مسلمانوں کی تعداد 70ہزار کے قریب ہے، جو زیادہ تر چم (Cham) نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلمان زیادہ تر جنوبی علاقوں نِن تھوان (Ning Thuan) اور ان جیانگ (An Giang)کے صوبوں میں آباد ہیں۔ویتنام میں مسلمانوں کو مذہبی عبادات کی اجازت ہے، لیکن اقلیت ہونے کی وجہ سے انہیں سماجی اور اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگرچہ مساجد اور مذہبی ادارے موجود ہیں، لیکن ان کی تعداد محدود ہے۔
مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی حالت دیگر اقوام کے مقابلے میں کمزور ہے۔ اقلیت ہونے کے باعث مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت، تعلیم، اور معیشت بہتر کرنے کے لیے سخت محنت و مشقت کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ ویتنام ایک کمیونسٹ نظریات رکھنے والا ملک ہے۔اگرویتنام میں حکومتی سطح پر مذہبی رواداری کو فروغ دیا جائے تو مسلمان اپنی شناخت نہ صرف برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ برادر مسلم ممالک خاص طور پرملائیشیا اور انڈونیشیا اسلامی ثقافت وعلوم کو فروغ دینے میں ویتنامی مسمانوں کے بہترین معاون و مددگارثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مسلمانوں کو مواقع فراہم کرکے ان کی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔
ویتنامی مسلمانوں کو اسلامی دنیا سے روابط بڑھانے، اتحاد پیدا کرنے اور بین الاقوامی برادری سے تعلقات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی تعلیمی، مذہبی اور سماجی حالت کو بہتر بنا سکیں۔ویتنام میں چامپا سلطنت سے متعلق کئی اہم آثار قدیمہ اور نوادرات محفوظ ہیں، جنہیں مختلف میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ ان میں سب سے مشہور چام اسکلپچرمیوزیم Cham Sculpture Museum)) ہے۔ یہ میوزیم چامپا سلطنت کے فن، ثقافت، اور مذہب کا بہترین عکس پیش کرتا ہے۔یہ میوزیم 1915ء میں قائم کیا گیا تھایہاں چامپا نوادرات کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ چام اسکلپچرمیوزیم اور ویتنام میں دیگر مقامات پرقائم میوزیم میں رکھے قیمتی نوادرات چامپا سلطنت کی شاندار تاریخ، فن وثقافت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ یہ اشیا چامپا کی مذہبی، تجارتی، اور فنکارانہ وراثت کومحفوظ رکھےہوئے ہیں, اور گم گشتہ عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔