شام میں ابھرنے والا سفیدپرچم

a91e7040-b919-11ef-ac8a-516067624b9c.jpg

شام کے نئے عبوری وزیر اعظم محمد البشیر کے 10 دسمبر کو دمشق میں ہونے والے اجلاس میں دکھائی دینے والے منظر کے عقب میں دو جھنڈے واضح طور پر نظر آ رہے تھے، ایک شام کا روایتی ’انقلابی پرچم‘ اور دوسرا سفید پرچم جس پر کلمہ طیبہ سیاہ رنگ میں تحریر تھا۔ یہ سفید پرچم، جو کہ افغانستان میں افغان عبوری حکومت کی علامت ہے ، ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے جھنڈے کے ساتھ تھا، سفید پرچم جو 2021 میں افغانستان پر افغان طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد عالمی سطح پر سرکاری پرچم کے طور پر متعارف کرایا گیا تاہم افغان عبوری حکومت کو ہی ابھی تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا، اس لئے شام پر قبضے کے بعد نئے عبوری وزیر اعظم محمد البشیر کی جانب سے سفید پرچم کا عقب میں ہونا نئی بحث کا پیش خیمہ ثابت ہواہے۔ یہ جھنڈا شام میں ایچ ٹی ایس کی حکومت کی نوعیت کے حوالے سے کچھ پیچیدگیوں کا موجب بن سکتاہے، اس پرچم کی موجودگی اس امر کی علامت ہو سکتی ہے کہ ایچ ٹی ایس نہ صرف افغانستان کے افغان طالبان کے نظریات سے متاثر ہے بلکہ وہ ان کے ساتھ اپنے سیاسی اور حکومتی نظام کی مماثلت بھی ظاہر کرنا چاہ رہے ہیں۔

شام میں سفید پرچم کا ابھرنا ایک نیا عالمی منظرنامہ پیش کرتا ہے ،یہ پرچم اس امر کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ ایچ ٹی ایس اپنی شناخت کو اسلامی نظریات کے مطابق منظم کرنے کا خواہاں ہیں اور افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، وہ ان کے حکومتی ماڈل کو اپنا نمونہ سمجھتا ہے۔یہ منظر افغان طالبان کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ وہ عالمی سطح پر اپنے اقتدار کی جوازیت اور تسلیم کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔البشیر نے اعلان کیا کہ وہ مارچ 2025 تک عبوری حکومت کی قیادت کریں گے۔نئی کابینہ میں مخالف سالویشن گورنمنٹ اور سابق اسد حکومت کے نمائندے شامل ہیں۔ امریکہ HTS کی دہشت گرد تنظیم کی حیثیت ختم کرنے پر غور کر رہا ہے۔عالمی برادری نئی حکومت کے اقدامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگر شام میں ایچ ٹی ایس کے زیر انتظام اسلامی حکومت کا ماڈل کامیاب ہو جاتا ہے، تو اس کا اثر افغان طالبان کی حکومت پر بھی پڑ سکتا ہے، کیونکہ دونوں گروہ ایک ہی قسم کے نظریات اور حکومتی ماڈلز پر یقین رکھتے ہیں اگرچہ دونوں گروہ مختلف جغرافیائی اور سیاسی حالات میں ہیں، لیکن ان کی حکومت کی نوعیت میں بہت سی مماثلتیں موجود ہیں، جو کہ عالمی سیاست میں ایک نیا توازن پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ شام میں ایچ ٹی ایس کی ماڈل حکومت اور افغان طالبان کی عبوری حکومت کا ڈھانچہ افغانستان کی عبوری سیٹ اپ کو متاثر کرسکتا ہے۔

شام میں حالیہ حکومت کی تبدیلی اور وہاں ابھرنے والا جھنڈا نہ صرف شامی سیاست بلکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ افغان طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اسلامی حکومت کے قیام کی بات کی ، اس تناظر میں شام میں ان کا جھنڈا بھی سامنے آیاہے، جو بیشتر عالمی قوتوں کے لیے ایک علامتی چیلنج ہے ، اگر شام میںHTCکو کامیابی ہوتی ہے تو یہ افغان طالبان کے لیے بھی دھچکا ثابت ہوسکتا ہے۔افغان طالبان افغانستان میں سخت گیر احکام کے نفاذ کے بعد عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ، دوسری جانب شام میں اسی نوعیت کی طرز حکومت کا اشارہ شامی حکومت کے لئے ممکنہ طور پر چیلنجز کو بڑھائے گی کیونکہ شام ابھی تک عالمی پابندیوں کی زد میں ہے۔

موجودہ حالات کے تناظر میں شامی کی نئی حکومت کو جائزہ لینا ہوگا کہ کیا وہ اپنے داخلی مسائل اور عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے فائدہ حاصل ہوگا یا وہ کسی دوسرے بحران میں جا سکتے ہیں۔ افغان طالبان کے لیے بھی شام میں اس جھنڈے کی موجودگی ایک نیا چیلنج بھی بن سکتی ہے لیکن دونوں حکومتوں کے داخلی اور عالمی سیاست میں فرق ہے۔ جہاں افغان طالبان نے افغان معاشرتی اقدار کو اپنی حکومت میں شامل کیا ہے وہیں شام میں یہ صورتحال مختلف ہو سکتی ہے، کیونکہ شام میں حکومت کا ماڈل ان کے اپنے مخصوص نظریات کے مطابق ہو سکتا ہے، جو کہ افغان طالبان کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ نہ ہو۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور ایران کے اثر نفوذ کی کمی کے بعد توقع یہی کی جا رہی ہے کہ نا مساعد حالات کے پیش نظر شام میں حکومت کے قیام کے لیے لچکدار پالیسی اختیار کی جاسکتی ہے، جو افغان طالبان کے سخت اصولوں کے مقابلے میں ایک مختلف راستہ اور لائحہ عمل ہوگا۔

اگر شام میں اس طرح کی حکومت کامیاب ہوتی ہے تو افغان طالبان کو اس کے اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے سخت نظریات کی بنا پر عالمی سطح پر الگ تھلگ پڑ چکے ہیں۔ افغان طالبان اس موقع پر شام کی حکومتی تبدیلیوں کو ایک سبق کے طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح لچکدار حکومتی ماڈلز عالمی سطح پر زیادہ قبولیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر شام میں اسلام کے اصولوں پر چلنے والی حکومت ایک لچکدار اور عملی طریقے سے اپنے نظریات کو اپنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ افغان طالبان کے لیے ایک امتحان ہوگا۔ افغانستان اور شام دونوں ہی ایسے ممالک ہیں جہاں عالمی طاقتیں اپنے مفادات کو بڑھانے کے لیے سیاسی مداخلت کرتی ہیں اور دونوں ہی ممالک میں اسلامی تحریکات اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے متحرک ہیں۔ افغانستان میں افغان طالبان کی عبوری حکومت پر عالمی سطح پر جو سوالات اٹھتے ہیں وہی سوالات شام میں بھی ابھر سکتے ہیں کیونکہ اگر شام میں بھی اسلامی جھنڈے کے تحت حکومت قائم ہوتی ہے تو افغان طالبان کو عالمی سطح پر تسلیم شدگی کی طرح مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

افغان طالبان نے حالیہ برسوں میں افغانستان میں حکومت کے قیام کے بعد عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ شام میں اس جھنڈے کے پیچھے چھپی حکومتی تبدیلیوں سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ افغان طالبان کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ شام میں اسلامی جھنڈے کے ذریعے اگر حکومت قائم کیگئی، وہ محض ایک علامتی نہیں ہوگی بلکہ ایک مکمل حکومتی نظام کی تشکیل کی طرف ایک قدم ہو سکتا ہے جس میں مختلف مقامی اور عالمی سطح پر مختلف عناصر کے درمیان توازن قائم کرنا ضروری ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے