پاکستانی طالبان نے پشاور آرمی پبلک سکول کو کیوں نشانہ بنایا؟
امریکہ میں پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کوک نے تیرہ جولائی 2016 کو ایک ہنگامی پریس کانفرنس بلائی۔ صحافیوں کے لیے یہ معمول کی پریس کانفرنس سے ہٹ کر تھی، جیسے کوئی بڑا واقعہ ہوا ہو۔انہوں نے مائیک سنبھالتے ہی کہا کہ ’افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں امریکہ کی جانب سے داعش کے ممکنہ ٹھکانوں پر ڈرون داغے گئے جن میں چار عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں اور اب تصدیق کی جاتی ہے کہ ان میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) حملے کا ماسٹر مائنڈ عمر منصور بھی مارا گیا ہے۔اس طرح سولہ دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں سو سے زائد بچوں کے قتل عام کی جو داستان شروع ہوئی، اس کا ایک کردار اختتام کو پہنچا۔
واقعہ اتنا بڑا تھا کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو باقاعدہ فون کر کے اس بڑی کامیابی کی خبر دی، کیونکہ اے پی ایس واقعے کے بعد پاکستان مسلسل اے پی ایس کے ماسٹر مائنڈ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ کہا جا رہا تھا کہ اس کا آغاز 16 دسمبر سے ہوا تھا۔عمر منصور پشاور اور درہ آدم خیل میں کالعدم ٹی ٹی پی کا کمانڈر تھا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق عمر منصور نے اسلام آباد سے تعلیم حاصل کی جب کہ وہ ایک مدرسے میں بھی زیر تعلیم رہا۔ وہ 2007 میں کالعدم ٹی ٹی پی میں شامل ہونے سے قبل کراچی میں مزدوری کرتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ سے بھی قریبی تعلقات تھے۔بظاہر تو یہی نظر آتا ہے، لیکن اس وقت کی صورت حال سے واقف سابق سکیورٹی اہلکاروں کا ماننا ہے کہ نظریاتی طور پر اس کہانی کا جنم اکتوبر 2006 میں باجوڑ میں ڈمہ ڈولہ میں ایک مدرسے پر ڈرون حملے اور بعد ازاں جولائی 2007 میں لال مسجد آپریشن سے ہوا۔
’اس وقت ڈمہ ڈولہ اور لال مسجد کی تصاویر کا ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے پروپیگنڈا مواد میں استعمال ایک عام بات تھی۔ ان تصاویر اور ویڈیوز کی آڑ میں نہ صرف بھرتی کا سلسلہ جاری تھا بلکہ یہی مواد جوانوں کو اشتعال دلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ایک سابق سکیورٹی اہلکار نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سوات کے ملا فضل اللہ کی اہمیت کچھ بھی نہیں تھی، لیکن لال مسجد آپریشن کے بعد اس نے خودکش حملوں کا اعلان کیا اور اس طرح ایک نئی اور شدید جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب یہ بات بھی عسکریت پسندوں میں گردش کرنے لگی کہ اگر حکومت ہماری درس گاہوں کو نشانہ بنا رہی ہے تو کیوں نہ ان کے سکولوں کو نشانہ بنایا جائے۔‘
ساتھ میں قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں خالی سکول کی عمارتوں کو مسلسل بموں سے اڑایا جا رہا تھا۔ ملا فضل اللہ کی سربراہی میں ہی طالبات کے سکول جانے پر پابندی لگائی گئی تھی۔سوات میں آپریشن کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما ملا فضل اللہ افغانستان کے صوبہ کنڑ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ تاہم، تعلیم اور سکولوں کے خلاف اس کی نفرت کم نہیں ہوئی بلکہ اور شدت کے ساتھ بڑھ گئی۔اکتوبر 2012 کو ملالہ یوسفزئی کو بھی سکول جاتے ہوئے نشانہ بنانے سے وہ ایک بار پھر عالمی میڈیا میں جگہ پانے میں کامیاب ہو گیا۔ 2013 میں جب حکیم اللہ محسود مارے گئے تو ملا فضل اللہ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بنایا گیا۔پہلی دفعہ کسی بندوبستی علاقے سے ٹی ٹی پی کے سربراہ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ان کی تنظیم کے اندر ناصرف مخالفت کی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے اندر دھڑے بندیوں کا عمل شروع ہوا۔ ایسے میں ایف آر پشاور کے کمانڈر عمر منصور عرف نرے ان کے ساتھ ملے۔
عمر منصور نرے کون تھے؟
ایف آر پشاور اور پشاور کے سنگم پر رہنے والے عمر نرے،عمر منصور نرے یا خلیفہ منصور کے نام سے بھی جانے جاتے تھے، وہ دراصل درہ آدم خیل کے ٹی ٹی پی کمانڈر طارق آفریدی المعروف بہ طارق گیدڑ کے قریبی ساتھی تھے۔ جنوب سے پشاور پر سارے حملوں کی ذمہ داری عمر منصور کی تھی۔2009 میں پولینڈ کے انجینیئر کے اغوا اور بعد ازاں قتل میں بھی عمر منصور شامل رہے۔ اس دوران عمر منصور کا دائرہ کار خیبر تک پھیل چکا تھا۔ طارق آفریدی کے قتل کے بعد ان کے نائب کمانڈر عارف نے اعلان کیا کہ اب وہ کمانڈر طارق کی جگہ لے چکے ہیں، تاہم حکیم اللہ محسود کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ کمانڈر عمر منصور ہی ان علاقوں میں کارروائیوں کی سربراہی کریں گے۔
جب حکیم اللہ محسود کے مرنے کے بعد ٹی ٹی پی کی سربراہی ملا فضل اللہ کو سونپی گئی تو عمر منصور خود کنڑ پہنچے اور جنوری 2014 کو باضابطہ ایک ملاقات کی۔ اسی ملاقات کے دوران دونوں بہت قریب آ گئے۔ چونکہ ملا فضل اللہ کو ایک قابل اعتماد ساتھی کی ضرورت تھی، اس لیے عمر منصور کے ملنے کے بعد اسے اپنی گرفت ٹی ٹی پی پر مضبوط نظر آنے لگی۔اہم بات یہ تھی کہ پولینڈ کے انجینیئر کے اغوا اور قتل کے بعد عمر منصور کا پروفائل بھی بڑھ چکا تھا اور چونکہ صوبائی دارالحکومت کے قریب کے محاذوں پر عمر منصور کی گرفت مضبوط تھی، اس لیے ملا فضل اللہ نے کچھ بڑا کرنے کا سوچا۔
آرمی پبلک سکول پر حملے کا خیال کہاں سے آیا؟
اس وقت کے سکیورٹی امور سے آگاہ ایک سابق اہلکار کا کہنا تھا کہ حکام کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ ملا فضل اللہ اپنی سربراہی کی دھاک بٹھانے کے لیے بڑے حملوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے قبل خیبر پختونخوا میں ہر گھنٹے حملے ہوتے تھے لیکن پھر انٹیلی جنس اور مسلسل آپریشن کے باعث ان کے بڑے بڑے حملے ناکام ہونے لگے۔ان کے بہت سارے ساتھی گرفتار ہوئے اور ایسا لگ رہا تھا کہ ملا فضل اللہ کا انتخاب ٹی ٹی پی کی تاریخ کا سب سے کمزور فیصلہ تھا۔یہ وجہ بھی تھی ملا فضل اللہ کی فرسٹریشن کی، سکیورٹی ذرائع کے مطابق اگست 2014 میں افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہونے والے ایک اجلاس میں عمر منصور نے ملا فضل اللہ کو پشتو کے ایک محاورے کا حوالہ دیا جس کا مطلب تھا کہ اگر بڑوں کو شدت سے تکلیف دینی ہو تو ان کے بچوں کو تڑپایا جائے۔
ملا فضل اللہ پہلے سے ہی سکولوں کا نام و نشان مٹانا چاہتے تھے۔ اس کے ذہن میں منصوبہ بننے لگا۔ منصوبہ تھا کہ پاکستان میں کسی آرمی سکول میں گھس کر بچوں کو یرغمال بنا کر اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو ان سینکڑوں بچوں کے بدلے میں رہا کیا جائے۔ جس سکیورٹی خطرے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ غالباً یہی سکیورٹی تھریٹ تھا۔متعلقہ اداروں کو اس انٹیلی جنس سے آگاہ کیا گیا۔ اس دوران ادارے بھی چوکنا ہو گئے اور جگہ جگہ کارروائیاں کی گئیں۔ مہینے گزرے لیکن عمر منصور نہیں بھولا۔ وہ پاک افغان سرحد پر ایک پہاڑی راستے شلمان کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے سات افراد سمیت خیبر پہنچا۔ یہ مشکل اس وجہ سے بھی نہیں تھی کہ اس وقت سرحد پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی۔
یہ لوگ خیبر کی تحصیل باڑہ میں واقع ٹی ٹی پی کے کیمپ شین درنگ پہنچے۔شین درنگ میں مٹی سے بنی ہوئی ایک مکان نما عمارت میں کئی کمرے تھے۔ یہ ان کا تربیتی مرکز تھا۔ یہاں سکھایا جاتا تھا کہ سیڑھیاں لگا کر دیوار کیسے پھلانگنی ہے، دوسری منزل پر کیسے جانا ہے، بھاری اسلحے کے ساتھ حرکت کیسے کرنی ہے، مغویوں کو کیسے علیحدہ کرنا ہے، انہیں باندھنے اور قابو میں رکھنے کے طریقے کیا ہیں۔مزید یہ کہ کمرے کے اندر گھس کر نشانہ کیسے لگانا ہے، بھاگتے ہوئے گولی کیسے چلانی ہے اور سب سے اہم، خودکش جیکٹ کو کب اور کیسے دھماکے سے اڑانا ہے۔
عمر منصور وقتاً فوقتاً آ کر ان کی مشق کا جائزہ لیتا تھا۔ اس تمام کارروائی کی قیادت کمانڈر صدام کو سونپی گئی تھی (کچھ ذرائع کے مطابق اس کا نام قاری شکیل تھا) جبکہ باقی چھ افراد نے عملی طور پر تمام کام سر انجام دینا تھا۔ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق صدام کو ’قاری‘ کے کوڈ نام سے پکارا جاتا تھا۔ باقیوں کے نام ابوذر، عمر، عمران، یوسف، عزیز اور چمنے تھے۔نومبر کے آخری ہفتے میں ان کی تربیت مکمل ہوئی تو عمر منصور کیمپ پہنچے۔ اس نے ان کے ساتھ ملاقات کی، تصاویر بنوائیں، ویڈیو ریکارڈ کی اور رہبر قاری کے حوالے کیا۔ انہیں تمام اسلحہ افغانستان سے فراہم کیا گیا تھا، اور خودکش جیکٹس بھی تیار تھیں۔
قاری نے نومبر سے ہی آرمی پبلک سکول کی ریکی مکمل کر لی تھی، اور نقشے کے ذریعے ان حملہ آوروں کو تمام تفصیلات سمجھا دی گئی تھیں۔منصوبہ یہ بنایا گیا کہ کوئی بھی حملہ آور اکٹھے پشاور نہیں جائے گا۔ سب کو الگ الگ اس انداز سے بھیجا جائے گا کہ اگر کوئی پکڑا بھی جائے تو باقیوں کا پتہ نہ چلے۔ایک سابق پولیس اہلکار کے مطابق اس وقت پشاور پولیس کی نفری دو ہزار سے بھی کم تھی اور قبائلی اضلاع سے پشاور آنے کے 392 راستے تھے۔ انہی راستوں کا استعمال کرتے ہوئے بندے اور سامان مختلف ذرائع سے پشاور پہنچایا گیا۔ اسلحہ، بارود، اور محاصرے کے دوران کھانے پینے کا انتظام پشاور سے ہی کر لیا گیا تھا۔
سولہ دسمبر کو کیا ہوا؟
تمام حملہ آور رات تک اسلحے سمیت اپنی آخری قیام گاہ تک پہنچ چکے تھے۔ یہ جگہ آرمی پبلک سکول سے چند قدم کے فاصلے پر تھی، لیکن بھاری اسلحہ اور دیگر سامان کی منتقلی کے لیے کیری ڈبے کا استعمال کیا گیا۔سکول پہنچتے ہی گاڑی کو آگ لگا دی گئی، اور دوسرے ساتھی سکول کی پچھلی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے۔ زیادہ تر طلبہ ہال میں جمع تھے، اس لیے حملہ آوروں نے سب سے پہلے وہیں دھاوا بول دیا۔ اس کے بعد وہ کچھ ہوا جس کا درد پوری دنیا آج بھی محسوس کرتی ہے۔صبح نو بجے شروع ہونے والی فائرنگ اور دھماکے شام تک جاری رہے۔حملہ آور افغانستان میں موجود عمر منصور نرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ اس دوران انہوں نے پشاور کے کچھ صحافیوں سے بھی بات کی۔ چونکہ حملہ آور براہ راست مرکزی حصے میں گھس گئے تھے، اس لیے فورسز کو پرائمری سطح کے بچوں کو بچانے کا موقع مل گیا۔لیکن اس کے بعد پشاور کی تاریخ خون سے لکھی گئی، اور کیمروں نے وہ مناظر قید کیے جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔
جب محاصرے کا منصوبہ تھا تو یہ قتل عام کیوں ہوا؟
اس حوالے سے ایک سابق تفتیش کار نے بتایا کہ دوران تفتیش معلوم ہوا کہ حملہ آوروں نے سکول میں داخل ہو کر آواز لگائی کہ ’کن بچوں کے والدین سکیورٹی اداروں میں ہیں؟‘ لیکن تب تک بھگدڑ مچ چکی تھی۔میرے خیال میں دوران تربیت انہوں نے بالغ مردوں کا سوچا تھا۔ انہیں بچوں کے ردعمل کا اندازہ نہیں تھا۔ جب ایک ساتھ بچوں نے شدید ردعمل دیا تو حملہ آور حواس باختہ ہو گئے۔ خودکش مشن پر آنے والے ذہنی طور پر کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتے۔بچوں کی بھگدڑ اور شور کے دوران وہ خود بھی قابو سے باہر ہو گئے۔ نتیجتاً، انہوں نے بے دریغ فائرنگ شروع کر دی۔ جب ایک خودکش حملہ آور کی انگلی بندوق پر یا جیکٹ کے بٹن پر دب جائے، تو وہ ہٹتی نہیں۔16 دسمبر کی اس تاریخ کے بعد نہ وہ سکول ویسا رہا، نہ پشاور۔