شام میں تکفیری دہشت گردوں کا خواب

11.jpg

ایسے وقت جب غاصب صیہونی رژیم کی فوج نے شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور دارالحکومت دمشق کے قریب پہنچ چکی ہے، شام کے موجودہ حکمران پراسرار طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اب تک صرف اقوام متحدہ میں شام کے نمائندے نے غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ قصی الضحاک، اقوام متحدہ میں شام کے نمائندے نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور سربراہ سلامتی کونسل کے نام دو خط لکھے جن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی فوج نے ایسے وقت شام پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا ہے جب یہ ملک اپنی تاریخ کا نیا باب تشکیل دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ قصی الضحاک نے اپنے خطوط میں مزید لکھا کہ صیہونی فوج نے جبل الشیخ اور صوبہ قنیطرہ کے وسیع علاقے پر فوجی قبضہ کر لیا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ شدید فضائی حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں شام کے نمائندے نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شام اپنی سرزمین کے خلاف صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے جو 1974ء میں انجام پانے والے دو طرفہ معاہدے کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

 

قصی الضحاک نے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت روکنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات انجام دیں۔ ایسے میں تکفیری دہشت گرد گروہوں نے اس مسئلے پر عجیب سی چپ سادھ رکھی ہے، جو اس وقت شام میں برسراقتدار ہیں اور ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ شام کو نجات دلانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم مسلسل شام کی اہم فوجی تنصیبات اور انفرااسٹرکچر کو تباہ کن حملوں کا نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی رژیم اب تک 300 سے زیادہ اہم مراکز کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا چکی ہے اور صیہونی فوج بھی دمشق کی جانب پیشقدمی کر رہی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صیہونی جارح فوج کے مقابلے میں کسی قسم کی کوئی مزاحمت انجام نہیں پا رہی؟ شام کی موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ شام آج جس منظرنامے سے دوچار ہے اس کی منصوبہ بندی امریکہ نے پہلے سے ہی کر رکھی تھی۔ جس وقت صیہونی فوج حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں لبنان کی دلدل میں پھنس چکی تھی اس نے خاص حکمت عملی کے تحت جنگ بندی کا اعلان کیا اور اس کے فوراً بعد ھیئت تحریری الشام کی مرکزیت میں تکفیری دہشت گرد عناصر نے شام میں بغاوت کا آغاز کر دیا۔

 

حقیقت یہ ہے کہ ھیئت تحریر الشام سمیت شام کے تمام دہشت گرد گروہ امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر چل رہے ہیں اور انہی کے مفادات کے لیے خطے میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ گروہ شام کی نجات کا دعوی کرتے تھے لیکن جب وہ برسراقتدار آ گئے اور حکومت ان کے ہاتھ میں آ گئی تو اب اپنی سرزمین پر صیہونی فوجی جارحیت پر چب سادھے بیٹھے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے حال اور مستقبل کے لیے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے؟ یہ گروہ ایسے وقت شام میں خوشی اور فتح کے جشن منانے میں مصروف ہیں جب شام میں اب بھی اسرائیل، امریکہ اور ترکی کی فوجیں موجود ہیں جبکہ شام کے مختلف شہر فضائی حملوں کا نشانہ بھی بن رہے ہیں۔ ایک سوال جو ان حالات میں ابھر کر سامنے آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا مسلح گروہوں کی عدم مزاحمت، شام میں صیہونی فوج کی پیشقدمی اور ناجائز فوجی قبضے کا باعث نہیں بنی؟ اسی طرح یہ سوال بھی پیش آتا ہے کہ بالفرض صیہونی فوج اپنی پیشقدمی جاری رکھتی ہے اور آخرکار دارالحکومت دمشق پر بھی قبضہ کر لیتی ہے تو اس ملک میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کیا معنی رکھے گی؟

 

اس وقت شام میں تین بڑے کھلاڑی ترکی، اسرائیل اور امریکہ ہیں۔ ان تینوں نے صدر بشار اسد کی حکومت گر جانے کے بعد اپنے مفادات کے تحفظ کے بہانے کسی نہ کسی صورت میں شام میں فوجی جارحیت شروع کر رکھی ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ تینوں بیرونی قوتیں نہ صرف شام سے نکل جانے کا منصوبہ نہیں رکھتیں بلکہ اپنی موجودگی میں اضافہ کرتی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں کسی ہمسایہ ملک پر فوجی حملہ اور اس کی دفاعی صلاحیتیں تباہ کرنا جارحانہ اقدام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جس طرح گذشتہ ایک سال میں مشاہدہ ہوا ہے، عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے بارے میں دوغلے معیار اختیار کر رکھے ہیں جن کی بنیاد پر وہ غاصب صیہونی رژیم کے ہر جارحانہ اقدام کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ شام میں برسراقتدار مسلح گروہ اس حقیقت سے غافل تھے کہ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گر جانے کے بعد بیرونی قوتیں شام کا مستقبل بنانے میں آپس میں مقابلہ بازی کریں گی۔ غاصب صیہونی رژیم نے شام میں طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی دفاعی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے اور اس اقدام میں اسے امریکی صدر جو بائیڈن کی حمایت بھی حاصل ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ اگر مستقبل میں بھی مسلح گروہ شام میں برسراقتدار رہے تو انہیں اسرائیل کا بغل بچہ بن کر رہنا پڑے گا اور اس کے اشاروں پر ناچتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے