افغان وزیر خلیل الرحمنٰ حقانی کی ہلاکت اور داعش خراسان کی بڑھتی ہوئی طاقت

a5fc703d-3f55-4d99-9159-830b19622db6_w650_r1_s.jpg

طالبان حکومت کے ایک اہم وزیر خلیل الرحمنٰ حقانی کے قتل نے داعش سے منسلک ایک مقامی تنظیم داعش خراسان کے بارے میں ان خدشات میں اضافہ کر دیا ہے کہ خطے میں اس کی دہشت گردی کے پھیلاؤ اور قوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔جمعرات کو مشرقی افغانستان میں طالبان حکومت کے مہاجرین اور وطن واپسی امور کے وزیر خلیل الرحمنٰ حقانی کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ وہ بدھ کے روز اپنی وزارت کے کئی عہدے داروں کے ساتھ ایک خود کش حملے میں اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب وہ کابل میں اپنے دفتر سے باہر نکل رہے تھے۔افغان میں موجود داعش خراسان کے نام سے موسوم ایک گروپ نے اس خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

افغانستان میں داعش سے وابستہ گروپ داعش خراسان نے اپنی نیوز ایجنسی عماق کے میڈیا ونگ کے ذریعے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک خودکش حملہ آور نے اپنی جیکٹ کے ذریعے یہ دھماکہ افغانستان کی مہاجرین اور وطن واپسی کی وزارت کے اندر کیا۔امریکہ نے طالبان حکومت کے وزیر کے خلاف ہلاکت خیز حملے پر فوری طور پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔تاہم قومی سلامتی کے کمیونیکیشن ایڈوائزر جان کربی نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان کے اندر داعش کا خطرہ اب بھی موجود ہے اور یہ واضح ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کی نظریں طالبان پر جمی ہیں۔اگست 2021 میں کابل پر قابض ہونے اور دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد یہ ان کے لیے سب سے اہم جانی نقصان ہے طالبان حکام نے اس حملے کو بزدلانہ قرار دیا ہے۔خلیل الرحمن حقانی کی نماز جنازہ اور آخری رسوم ان کے آبائی شہر پکتیا میں ادا کی گئیں، جس میں طالبان کے کئی سینئر رہنما، وزرا اور دیگر حکام بھی شریک ہوئے۔

مقتول حقانی کا نام امریکہ کی انعامات برائے انصاف کی ویب سائٹ پر عالمی دہشت گرد کے طور درج تھا اور ان کی گرفتاری میں مدد دینے والی معلومات پر 50 لاکھ ڈالر کا انعام مقرر تھا۔خلیل الرحمن حقانی کی عمر 58 برس تھی اور وہ امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے ایک گروپ حقانی نیٹ ورک کے مرکزی رہنما تھے۔اس گروپ کی سربراہی ان کے بھتیجے سراج الدین حقانی کے پاس ہے جو طالبان حکومت میں وزیر داخلہ ہیں۔سراج الدین حقانی کی گرفتاری میں مدد دینے والی معلومات پر امریکہ کی جانب سے ایک کروڑ ڈالر کا انعام مقرر ہے اور ان پر طالبان حکومت کے قیام سے قبل امریکی اور نیٹو کے فوجیوں کے خلاف دہشت گرد حملوں کا الزام ہے۔اس سے قبل داعش خراسان شیعہ برادری کے ارکان، طالبان رہنماؤں، ان کے وفاداروں اور غیرملکیوں کو اپنے حملوں کا ہدف بنانے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے جائزوں اور امریکی حکام کی جانب سے داعش خراسان کو افغانستان اور علاقائی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔