اسرائیل کی شامی اہداف پر مستقل بمباری اور قبضہ، اس خبر کی کوریج کہاں؟
اسرائیل شام پر کئی دہائیوں سے غیرقانونی حملے کر رہا ہے، عام طور پہ ان حملوں کی خبر نہ مغربی میڈیا پر ہوتی ہے اور نہ اسرائیلی میڈیا اُن کا ذکر کرتا ہے۔لیکن پچھلے ایک ہفتے میں ان زمینی اور فضائی حملوں کی شدت نے الگ ہی انتہا اختیار کر لی ہے۔ایک آپریشن جسے اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں نے ملکی فضائیہ کا سب سے بڑا آپریشن قرار دیا ہے، اس میں اسرائیل نے شام پر تقریباً 500 مرتبہ بمباری کی ہے، جس سے اس کے 80 فیصد فوجی اثاثے اور پوری بحریہ تباہ ہو چکی ہے۔اسرائیلی فوجیوں نے اب اُس نام نہاد بفر زون پر بھی قبضہ کر لیا ہے، جو نصف صدی سے شام کے ایک حصے گولان ہائیٹس، جہاں اسرائیل غیرقانونی طور پر قابض ہے، کو شام کے باقی حصوں سے الگ کرتا رہا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے ان اقدامات کا مقصد شام کے فوجی سازوسامان کو ’شدت پسندوں‘ کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا اور شامی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔
اگر آپ مغربی میڈیا یا اسرائیلی پریس پر شام کے حالات دیکھ رہے ہیں تو آپ کو شاید علم نہ ہو کہ ایک خودمختارریاست پر بمباری کرنا، اس پر حملہ کرنا اور اس کی سرزمین پر قبضہ کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت ’غیر قانونی‘ ہیں۔اسرائیل میں صحافتی گرو ان خلاف ورزیوں کا جشن منا رہے ہیں اور صحافیوں نے کھلے عام کہا ہے کہ اسرائیل کا اپنا نیا علاقہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
مغربی میڈیا پر خبروں کی بات اس لیے قابل ذکر ہے کہ اس میں لفظ ’غیر قانونی‘ تقریباً غیر موجود ہے۔یہی لفظ روس جیسے ممالک کی طرف سے یوکرین یا کہیں اور، اسی طرح کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ میں آزادانہ اور بھرپور طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔اور غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کی کوریج میں تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، یہ طے ہے کہ مجرم جب اسرائیل ہو تو صحافت کا ایک مختلف معیار لاگو ہو گا، اور یہ قابل مذمت ہے!