اسرائیل کی شامی اہداف پر مستقل بمباری اور قبضہ، اس خبر کی کوریج کہاں؟

171553918.jpg

اسرائیل شام پر کئی دہائیوں سے غیرقانونی حملے کر رہا ہے، عام طور پہ ان حملوں کی خبر نہ مغربی میڈیا پر ہوتی ہے اور نہ اسرائیلی میڈیا اُن کا ذکر کرتا ہے۔لیکن پچھلے ایک ہفتے میں ان زمینی اور فضائی حملوں کی شدت نے الگ ہی انتہا اختیار کر لی ہے۔ایک آپریشن جسے اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں نے ملکی فضائیہ کا سب سے بڑا آپریشن قرار دیا ہے، اس میں اسرائیل نے شام پر تقریباً 500 مرتبہ بمباری کی ہے، جس سے اس کے 80 فیصد فوجی اثاثے اور پوری بحریہ تباہ ہو چکی ہے۔اسرائیلی فوجیوں نے اب اُس نام نہاد بفر زون پر بھی قبضہ کر لیا ہے، جو نصف صدی سے شام کے ایک حصے گولان ہائیٹس، جہاں اسرائیل غیرقانونی طور پر قابض ہے، کو شام کے باقی حصوں سے الگ کرتا رہا ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے ان اقدامات کا مقصد شام کے فوجی سازوسامان کو ’شدت پسندوں‘ کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا اور شامی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔
اگر آپ مغربی میڈیا یا اسرائیلی پریس پر شام کے حالات دیکھ رہے ہیں تو آپ کو شاید علم نہ ہو کہ ایک خودمختارریاست پر بمباری کرنا، اس پر حملہ کرنا اور اس کی سرزمین پر قبضہ کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت ’غیر قانونی‘ ہیں۔اسرائیل میں صحافتی گرو ان خلاف ورزیوں کا جشن منا رہے ہیں اور صحافیوں نے کھلے عام کہا ہے کہ اسرائیل کا اپنا نیا علاقہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

مغربی میڈیا پر خبروں کی بات اس لیے قابل ذکر ہے کہ اس میں لفظ ’غیر قانونی‘ تقریباً غیر موجود ہے۔یہی لفظ روس جیسے ممالک کی طرف سے یوکرین یا کہیں اور، اسی طرح کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ میں آزادانہ اور بھرپور طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔اور غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کی کوریج میں تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، یہ طے ہے کہ مجرم جب اسرائیل ہو تو صحافت کا ایک مختلف معیار لاگو ہو گا، اور یہ قابل مذمت ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔