شام میں ترکی کا غلط کھیل
صدر بشار اسد کی سربراہی میں شام حکومت کی سرنگونی اور اس ملک میں دہشت گرد گروہوں اور مسلح جتھوں کی موجودگی نہ صرف شام کے لیے خطرات کا باعث ہے بلکہ علاقائی تنازعات کو بھی بڑھا سکتی ہے اور مغربی ایشیا خطے میں تنازعات میں اضافہ کر سکتی ہے۔ ترکی نے شمالی شام میں موجودہ اپوزیشن کو اپنی پراکسیوں میں تبدیل کرنے کے لیے کئی سالوں تک اس خطے میں سرمایہ کاری کی اور اب شام کی انتظامیہ میں شرکت کرنا چاہتا ہے، ترکی کی حکومت شام میں حزب اختلاف اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر کے مختلف مقاصد حاصل کر رہی تھی۔ اس خطے میں ترکی کا ایک اور مقصد شمالی شام میں ایک خودمختار کرد علاقے کی تشکیل کو روکنا اور PKK سمیت دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ شام میں حکومت کی تبدیلی اور ترکی کی جانب سے شام میں زیادہ حصہ مانگنے پر روس نے انقرہ کے ساتھ مفادات کا ٹکراؤ محسوس کیا، کیونکہ شام میں ایک فوجی اڈہ ہونے اور سابق شام حکومت سے دفاعی معاہدے کے ناطے ماسکو خود کو اس ملک میں زیادہ حقدار سمجھتا ہے۔ یہ مسئلہ ادلب میں بحران کی شدت میں اضافے کے بعد مزید ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے اور انقرہ کے نیٹو کے ساتھ تعلقات خود بخود روس اور دونوں فریقوں کے درمیان تنازعات کی حساسیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اگرچہ اس بحران کے ابھی تک دونوں فریقوں کے درمیان کوئی واضح آثار نہیں ہیں لیکن شام میں ایسے حالات کی توقع رکھنی چاہیے۔
دوسری جانب جبکہ روس نے اعلان کیا کہ حمیمیم، طرطوس اور لازقیہ میں روسی فوجی اڈے کی سرگرمیاں جاری ہیں، ترکی نے ان علاقوں پر بمباری کر کے روسی حکام کو ناراض کر دیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اگر روسی حکام کو مطمئن نہ کیا گیا تو شام میں ماسکو اور ترکی کے درمیان تنازعہ بڑھ جائے گا۔ مزید برآں، شام میں ترکی کی پالیسیوں کو اہمیت دینے والا بھی کوئی نہیں ہے، اور اس کی جانب سے شمالی شام میں بفر زون بنانے پر اصرار کرنے نے روسی حکام کو بھی ناراض کر دیا ہے کیونکہ ماسکو اسے شام میں ترکی کے حامی عناصر کی کالونی کے طور پر سمجھتا ہے۔ ترک حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ دونوں ممالک کی سرحدی پٹی کے ایک حصے میں انفرااسٹرکچر اور سہولیات کی تعمیر نو کرنا چاہتی ہے جسے داعش کے دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے اور ایک بفر زون بنانا ہے، جس کی نہ صرف روسی مخالفت کریں گے، بلکہ خطے کی عوام بھی اس کی شدید مخالفت کرے گی۔ شام، اردن اور مصر کے عوام کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آئے گا اور وہ ایسی پالیسی ہرگز قبول نہیں کریں گے اور کبھی بھی عثمانی آرزو کی بنیاد پر ان علاقوں کو ترکی کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مغربی دنیا قومی اختلافات کو ہوا دے کر کر خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہ پین ترک اور پین عرب سرگرمیوں کو فروغ دے کر مزاحمتی محاذ کو ختم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
تاریخی لحاظ سے دوسری جنگ عظیم کے بعد علاقائی طاقتوں کو مسلط کرنا خطے میں مغربی پالیسیوں میں شامل تھا اور اس طرح کے تنازعات پیدا کر کے وہ بجھی ہوئی آگ کی راکھ کے نیچے دوبارہ شعلے بھڑکاتے ہیں۔ یہ حالات شام کو بھی کمزور کر دیں گے۔ اس وقت شامی عوام کے بہت سے معاشی، سیاسی اور سماجی مطالبات ہیں اور شام کی موجودہ صورتحال میں ترکی کی مداخلت کی وجہ سے وہ اپنے مطالبات اردگان اور ترک پراکسیوں سے کریں گے۔ ان کی خواہش ہے کہ ترکی اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم شام پر جارحیت فورا بند کر دے۔ دوسری طرف، ترک عوام بھی اردگان کی علاقائی پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں۔ اس لیے اگر ترکی بھی غاصب صیہونی رژیم کی طرح شام میں اپنے حملے جاری رکھتا ہے تو کشیدگی مزید بڑھے گی، جس سے اسلامی مزاحمتی محاذ کو نقصان پہنچے گا اور اس کا براہ راست فائدہ غاصب صیہونی رژیم کو ہو گا۔ اگر اسرائیل مفادات کے اس تضاد کو مزید وسعت دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں شامی عوام میں اسرائیل مخالف جذبات کم ہو جائیں گے اور ان کی توجہ دیگر علاقائی کھلاڑیوں پر مرکوز ہو جائے گی۔