گولان پہاڑیاں کیوں اہم ہیں اور اسرائیل نے یہاں کیوں قبضہ کیا ہے؟

64e14cc0-b7c2-11ef-a0cf-7bf220dc1294.jpg

پچھلے ہفتے جب شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اچانک الٹ گیا تو اس دوران جو واقعات پیش آئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اسرائیل نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے گولان کی پہاڑیاں پر واقع بفر زون پر قبضہ کر لیا اور وہاں مسلسل اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیے چلا جا رہا ہے۔پیر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ گولان کی پہاڑیاں ’ابد تک‘ اسرائیل کا حصہ رہیں گی۔متعدد ملکوں نے اس بیان پر تنقید کی ہے اور اقوامِ متحدہ نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، مگر اسرائیل کا موقف تبدیل نہیں ہوا۔اس علاقے کی اہمیت کیا ہے اور اسرائیل کیوں یہاں پر قابض رہنا چاہتا ہے؟

گولان کی پہاڑیاں کہاں واقع ہیں؟

گولان کی پہاڑیاں شام کے مغرب میں دفاعی نقطۂ نظر سے بہت اہم علاقہ ہے جس کی سرحدیں اسرائیل، لبنان اور اردن سے ملتی ہیں۔ یہ شام کے دارالحکومت دمشق سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور اس کا رقبہ 1200 مربع کلومیٹر ہے۔یہ علاقہ پہاڑی مگر زرخیز ہے جہاں سیب، انگور اور چیری وسیع پیمانے پر اگتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریائے اردن بھی یہیں سے نکلتا ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر سیاح آتے ہیں اور یہیں شام، اردن اور اسرائیل کا بلند ترین مقام بھی واقع ہے جس سے اس کی عسکری اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

گولان کی پہاڑیاں کس کی ملکیت ہیں؟

گولان کی پہاڑیاں جنوب مغربی شام سے لے کر شمال مشرقی اسرائیل تک پھیلی ہوئی ہیں اور فی الحال ان پر اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے۔سنہ 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے دوران شامی افواج نے گولان کی پہاڑیوں سے ہی اسرائیل پر حملہ کیا تھا تاہم اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے نا صرف اس حملے کو پسپا کیا بلکہ اس علاقے کے تقریباً 1,200 مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا تھا۔شام نے 1973 کی مشرق وسطیٰ جنگ (یوم کپور) کے دوران گولان کی پہاڑیوں کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہا تھا۔

بعد ازاں 1974 میں شام اور اسرائیل نے ایک جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت دونوں ممالک کی افواج کو گولان کی 80 کلومیٹر طویل سرحدی پٹی کے دونوں اطراف سے انخلا کی ضرورت تھی اور اس علاقے کو ’ایریا آف سپریشن‘ قرار دیا گیا اور اس کے بعد سے اقوام متحدہ کا ’ڈس انگیجمنٹ آبزرور فورس‘ نامی یونٹ اس معاہدے کی تعمیل کی نگرانی کے سلسلے میں وہاں موجود ہے۔تاہم معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنہ 1981 میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر اپنی جانب کے علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور یہودی آباد کاروں نے وہاں گھر بنانا شروع کر دیے۔اس علاقے پر اسرائیل کی خودمختاری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا تاہم 2019 میں اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس ضمن میں سابقہ امریکی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے اس علاقے پر اسرائیل کا حق تسلیم کر لیا۔

شام کا مؤقف یہ ہے کہ وہ آئندہ اسرائیل کے ساتھ اُس وقت تک کوئی امن معاہدہ نہیں کرے گا جب تک وہ گولان کے پورے خطے سے انخلا نہیں کرتا۔نومبر 2024 میں شام اور اقوام متحدہ نے شکایات کی تھیں کہ اسرائیل بفر زون کے قریب اور بعض مقامات پر اس کے اندر خندقیں کھود رہا ہے۔

گولان میں اقوامِ متحدہ کی فوج کہاں تعینات ہے؟

گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کی ڈس انگیجمنٹ آبزرور فورس (UNDOF) کیمپوں اور چوکیوں میں تعینات ہے، جسے اقوام متحدہ کی جنگ بندی نگرانی تنظیم (UNTSO) کے فوجی مبصرین کی حمایت حاصل ہے۔اسرائیلی اور شامی افواج کے درمیان 400 مربع کلومیٹر کا غیر فوجی زون قائم ہے، جہاں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی افواج کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔31 مئی 1974 کے معاہدے کے تحت، علاقے کے مغرب میں ایک ’الفا لائن‘ بنائی گئی ہے، جس کے پیچھے اسرائیلی افواج کو رہنا ہوتا ہے، اور مشرق میں ’براوو لائن،‘ جس کے پیچھے شامی افواج کو رہنا ہوتا ہے۔غیر فوجی علاقے کے دونوں طرف 25 کلومیٹر کا ایک ’حد بندی کا علاقہ‘ بھی قائم ہے، جہاں دونوں ممالک کے فوجیوں کی تعداد اور ہتھیاروں کی قسم پر پابندیاں عائد ہیں۔

گولان میں کون رہتا ہے؟

گولان میں تقریباً 55 ہزار افراد مقیم ہیں، جن میں 24 ہزار دروز ہیں۔ دروز نسلی طور پر عرب ایک عرب اقلیت ہیں اور اسلام سے نکلی ہوئی ایک شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسرائیل نے ان کو شہریت کی پیشکش کی لیکن زیادہ تر نے اسے مسترد کرتے ہوئے شامی شہریت برقرار رکھی اور وہ خود کو شامی شہری سمجھتے ہیں۔جب اسرائیل نے گولان پر قبضہ کیا تو بہت سے مقامی لوگ وہاں سے شام کے مختلف علاقوں میں منتقل ہو گئے، مگر دروز برادری کے بہت سے لوگ وہیں رک گئے۔ دروز نسلی طور پر عرب ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں۔ شام کے علاوہ ان کی کچھ تعداد اردن، لبنان اور اسرائیل میں بھی آباد ہیں۔قبضے کے بعد یہاں پر اسرائیل آبادکاروں کی خاصی تعداد آ بسی تھی۔ اس وقت یہاں آباد کاروں کی 30 سے زیادہ بستیاں ہیں جہاں تقریباً 31 ہزار لوگ مقیم ہیں، جن میں سے زیادہ تر زراعت، خصوصاً انگور کی کاشت، اور سیاحت کے شعبوں سے منسلک ہیں۔

اسرائیل گولان کی پہاڑیاں پر قبضہ کیوں چاہتا ہے؟

اسرائیل شام کی دہائیوں طویل خانہ جنگی کے دوران کہتا رہا ہے کہ گولان کی پہاڑیاں شورش زدہ علاقوں اور اسرائیلی سرزمین کے درمیان ایک بفر زون کے طور پر ضروری ہیں۔اسرائیلی حکومت کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ایران شام کی سرحد کے قریب مستقل اڈہ قائم کر کے اسرائیل پر حملے کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل نے اسد کی حکومت کے خاتمے سے پہلے کے برسوں میں شام میں ایرانی فوجی ٹھکانوں پر بار بار فضائی حملے کیے ہیں۔اسی علاقے میں 9232 فٹ بلند کوہِ ہرمون یا جبل الشیخ بھی واقع ہے، جو شام اور اسرائیل کی بلند ترین چوٹی ہے اور یہاں اکثر برفباری ہوتی ہے اور یہاں ایک سکی ریزورٹ بھی واقع ہے۔اسرائیل اور شام دونوں گولان کی پہاڑیوں کے قدرتی آبی وسائل اور زرخیز زمین کے خواہاں رہے ہیں۔

دنیا کا گولان کی پہاڑیوں پر کیا موقف ہے؟

1981 میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کے بڑے حصے کو ضم کر کے وہاں اسرائیل کے قوانین نافذ کر دیے، مگر کسی اور ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ دیگر تمام ملک اس خطے کو شام کی ملکیت سمجھتے ہیں جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔1981 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی، جس میں اسرائیل کے قبضے کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قانون کے نفاذ کو واپس لے۔ اس قرارداد میں اسرائیل کے گولان پر حکمرانی کو ’کالعدم، غیر مؤثر اور بین الاقوامی قانونی حیثیت سے محروم‘ قرار دیا گیا۔

2019 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حاکمیت کو تسلیم کر لیا۔ انہوں نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کو ایک نقشے پر دستخط کر کے بھی دیے جس میں بظاہر یہ علاقہ اسرائیل کی ملکیت دکھایا گیا ہے۔2021 میں جو بائیڈن امریکی صدر بنے مگر ان کے دور میں بھی امریکی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

اسرائیل نے حالیہ دنوں میں گولان کی پہاڑیوں پر کیا کارروائیاں کی ہیں؟

اس علاقے سے شامی فوج اس وقت نکل گئی تھی جب باغی گروہوں کے دستے دمشق کی جانب بڑھ رہے تھے اور بشار الاسد کا اقتدار ختم ہو رہا تھا اور اسی موقع پر اسرائیلی کی دفاعی افواج نے گولان کی پہاڑیوں پر غیر فوجی بفر زون کا کنٹرول حاصل کر لیا۔اسرائیلی فوج یہ بھی تسلیم کر رہی ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں میں غیر فوجی بفر زون سے باہر کے علاقے میں بھی موجود ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت آگے نہیں گئے ہیں۔نیتن یاہو نے کہا کہ ان کی افواج ’عارضی دفاعی پوزیشن اختیار کر رہی ہیں اور یہ عارضی بندوبست اس وقت تک کے لیے ہے جب تک کوئی مناسب انتظام نہیں ہو جاتا۔

انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی خواہش ہے کہ وہ شام میں ابھرنے والی نئی قوتوں کے ساتھ پرامن اور ہمسائیگی پر مبنی تعلقات رکھیں ’لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم اسرائیل کی ریاست اور اسرائیل کی سرحد کے دفاع کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کریں گے۔شام سے سامنے آنے والی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں سے آگے پیش قدمی کرتے ہوئے دمشق سے 25 کلومیٹر کی دوری تک پہنچ گیا ہے لیکن اسرائیلی فوجی ذرائع نے اس بات کی تردید کی اور کہا ہے کہ فوج بفر زون سے آگے بڑھی ہے مگر اس حد تک نہیں۔

کئی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے شام میں حالیہ اقدامات کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ مصر کی وزارت خارجہ نے اسے ’شام کی سرزمین پر قبضہ اور 1974 کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔نتن یاہو نے کہا کہ انھوں نے یہ اقدامات اسرائیل کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے اٹھائے ہیں کیونکہ شام پر باغی گروہوں کے قبضے کے بعد 1974 کا معاہدہ ’فعال‘ نہیں رہا۔

پروفیسر گلبرٹ اچکر کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ’وہ شام کی جانب سے حماس کے 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے جیسے کسی بھی حملے کو روکنا چاہتا ہے۔‘بہت سے تجزیہ کار اسرائیل کے اس اقدام کے حوالے سے دیے گئے جواز کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔لندن میں بین الاقوامی أمور کے تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس سے منسلک پروفیسر یوسی میکلبرگ کہتے ہیں کہ ’شام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گا، اگرچہ یہ اسرائیل کی جانب سے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا پیشگی اقدام ہے لیکن غیر فوجی بفر زون میں کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کا کوئی جواز نہیں۔‘

لندن میں قائم تھنک ٹینک، رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایچ اے ہیلیر کا کہنا ہے کہ شام کے باغی گروپوں کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل سے قبضہ چھڑانے کے امکانات مستقبل قریب میں انتہائی کم ہیں۔ان کے مطابق شام کے باغی گروہ ’ملک کے اندرونی معاملات میں اس حد تک مصروف ہوں گے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک نیا تنازع پیدا کرنے کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ملے گا۔پروفیسر میکلبرگ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے شام کے علاقوں میں موجودگی شام میں آنے والی مستقبل کی حکومتوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو خراب کرے گی۔اسرائیل احتیاطی تدابیر کے طور پر بدترین حالات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ سب بے سود ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ نئی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلق استور کرنے کا طریقہ نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے