شام کی نئی حکومت کا آئین اور پارلیمنٹ کو تین ماہ کے لیے معطل کرنے کا اعلان

2142464-549192153.jpg

شام کی نئی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد ملک کا آئین اور پارلیمنٹ تین ماہ کی عبوری مدّت کے لیے معطل رہے گی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق عبیدہ ارناؤط نے کہا ہے کہ ایک عدالتی اور انسانی حقوق کی کمیٹی قائم کی جائے گی جو آئین کا جائزہ لے گی اور پھر ترامیم پیش کرے گی۔موجودہ آئین 2012 کا ہے اور اس میں اسلام کو ریاستی مذہب کے طور پر متعین نہیں کیا گیا ہے۔

ایک انٹرویو میں شام کی نئی حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ اقتدار کی منتقلی کے لیے اسد انتظامیہ کے سالویشن گورنمنٹ کے وزراء اور سابق وزراء کے درمیان منگل کو ایک میٹنگ ہو گی۔انہوں نے کہا کہ ’یہ عبوری دور تین ماہ تک جاری رہے گا۔ اداروں کا تحفظ ہماری ترجیح ہے۔سرکاری ٹیلی ویژن کے ہیڈ کوارٹر، جسے اب نئے عسکریت پسند حکام نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے، میں خطاب کرتے ہوئے عبیدہ ارناؤط نے عہد کیا کہ وہ قانون کی بالادستی قائم کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ شامی عوام کے خلاف جرائم کرنے والوں کا قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

مذہبی اور شخصی آزادیوں کے بارے میں ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم شام میں مذہبی اور ثقافتی تنوع کا احترام کرتے ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کی قیادت میں عسکریت پسندوں نے اتوار کو دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا تھا اور صدر بشار الاسد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔شام میں عسکریت پسندوں کے قبضے کے بعد اقتدار اور ملک چھوڑنے والے صدر بشار الاسد اور ان کا خاندان اس وقت روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہیں اور روس نے انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دی ہے۔

منگل کو محمد البشیر نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں بتایا تھا کہ انہیں شام کی عبوری حکومت کا نگران وزیراعظم نامزد کیا گیا ہے۔خیال رہے شام میں سابق صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد محمد البشیر کو عبوری حکومت تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔
محمد البشیر یکم مارچ 2025 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔