کابل میں خود کش دھماکہ: طالبان حکومت کے وزیر خلیل الرحمان حقانی سمیت تین افراد ہلاک

a5fc703d-3f55-4d99-9159-830b19622db6_w650_r1_s.jpg

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں وزارتِ مہاجرین کے دفاتر میں ہونے والے خودکش دھماکے میں وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمان حقانی سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔رپورٹس کے مطابق طالبان حکومت کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دھماکہ بدھ کو وزارتِ مہاجرین کے دفاتر میں ہوا جس میں خلیل حقانی سمیت اُن کے کچھ دیگر ساتھی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق خلیل الرحمان حقانی کے بھتیجے انس حقانی نے بھی اُن کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔خلیل حقانی، حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے بھائی اور طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا تھے۔حقانی نیٹ ورک کو افغان جنگ کے دوران امریکہ اور اتحادی افواج پر کئی حملوں کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔سن 2021 میں افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد مارے جانے والے یہ سب سے اہم طالبان رہنما ہیں۔ تاحال کسی گروپ نے دھماکے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔

پاکستان کی مذمت

پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کابل دھماکے کی مذمت کی ہے۔ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ "دہشت گردی کے واقعے میں خلیل الرحمان حقانی اور دیگر افراد کی ہلاکت پر اُنہیں افسوس ہے۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، دھماکے سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے کابل سے رابطے میں ہیں۔واضح رہے کہ افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم ‘داعش’ کو طالبان کا بڑا حریف سمجھا جاتا ہے اور یہ افغانستان میں متعدد حملوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔