شام کے عبوری وزیر اعظم محمد البشیر کون ہیں؟

378826-920273364.jpg

شام میں سابق صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اب محمد البشیر کو عبوری حکومت تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔شام کی نئی انتظامیہ محمد البشیر کو عبوری حکومت کا وزیر اعظم منتخب کیا ہے جو اس عبوری دور کے انتظام کے لیے حکومت تشکیل دیں گے۔محمد البشیر 1983 میں شمال مغربی شام کے صوبہ ادلب میں پیدا ہوئے۔ اس سال جنوری میں انہیں ادلب میں نام نہاد شامی سالویشن حکومت (ایس ایس جی) کا سربراہ نامزد کیا گیا۔اس تقرر سے قبل البشیر 2022 سے 2023 تک ایس ایس جی کے ترقیاتی اور انسانی امور کے وزیر رہے۔وہ شامی گیس کمپنی کے سابق ملازم ہیں اور ان کے پاس انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ شریعت اور قانون کی ڈگریاں بھی ہیں۔2024 کے آغاز میں جنرل شوریٰ کونسل نے اپنی ساتویں مدت کے لیے محمد البشیر کو وزارتی کونسل کی قیادت کے لیے منتخب کیا جس کے لیے ان پر اکثریتی ووٹ کے ساتھ اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت

محمد البشیر نے 2007 میں حلب یونیورسٹی کے شعبہ مواصلات سے الیکٹریکل اور الیکٹرانک انجینئرنگ میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ادلب یونیورسٹی سے شریعت اور قانون میں بھی بی اے کیا۔2021 میں انہوں نے انٹرنیشنل اکیڈمی فار ٹریننگ، لینگویجز اینڈ کنسلٹنگ سے پروجیکٹ مینجمنٹ کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور اسی سال انتظامی منصوبہ بندی اور تنظیم کے اصولوں پر ایک اضافی سرٹیفکیٹ بھی مکمل کیا۔

سالویشن حکومت کی قیادت

27 دسمبر 2023 کو شامی نجات حکومت کی چھٹی مدت کے اختتام پر، شوریٰ کونسل نے محمد البشیر کو علی قداح کی جگہ ساتویں مدت کے لیے نجات حکومت کی قیادت کے لیے منتخب کرنے کا اعلان کیا۔27 نومبر 2024 کو شامی مسلح اپوزیشن دھڑوں نے ’فوجی آپریشنز روم‘ کے تحت ’جارحیت کے خلاف مزاحمت‘ کے نام سے جنگ کا آغاز کیا۔ محض 11 دنوں کے اندر انہوں نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور آٹھ دسمبر کو دمشق، شامی دارالحکومت، پر قابض ہو گئے۔نو دسمبر کو فوجی آپریشنز روم کے کمانڈر انچیف احمد الشرع جو ابو محمد الجولانی کے نام سے معروف ہیں نے اعلان کیا کہ محمد البشیر کو عبوری مرحلے کے انتظام کے لیے ایک نئی شامی حکومت تشکیل دینے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔

یہ اعلان ایک اجلاس کے بعد کیا گیا جس میں اقتدار کی منتقلی کے انتظامات کو حتمی شکل دی گئی اور شام کو بدامنی سے محفوظ رکھنے کے اقدامات پر بات چیت ہوئی۔ اجلاس میں احمد الشرع، محمد البشیر اور سابق حکومت کے وزیراعظم محمد الجلالی نے شرکت کی، جنہیں حکومتی امور کے عبوری انتظام کی ذمہ داری دی گئی۔2011 میں انہوں نے روسی گیس کمپنی کے گیس پلانٹ میں پریسیژن انسٹرومنٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔وہ الامل تعلیمی ادارے کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ اوقاف، دعوت اور رہنمائی کی وزارت میں انہوں نے ڈھائی سال تک اسلامی تعلیم کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔بعد ازاں، انہیں وزارت ترقی اور انسانی امور میں ایسوسی ایشن افیئرز کا ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔ 2022 میں انہیں ادلب میں سالویشن حکومت کا وزیر برائے ترقی اور انسانی امور مقرر کیا گیا۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شام کی پارلیمان نے پیر کو بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے ایک دن بعد کہا ہے کہ وہ عوام کی نئے ملک کی تعمیر کی خواہش کی حمایت کرتی ہے۔شامی پارلیمان کا کہنا ہے کہ ’8 دسمبر تمام شامیوں کی زندگیوں میں ایک تاریخی دن تھا۔ ہم قانون اور انصاف کے تحت ایک بہتر مستقبل کی طرف ایک نئے شام کی تعمیر کے لیے لوگوں کی خواہش کی حمایت کرتے ہیں۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔