انڈیا میں ” مسجد مندر” کے جھگڑے معاملہ کیا ہے ؟

8445c7a0-b400-11ef-a2ca-e99d0c9a24e3.jpg

ایودھیا میں جب رام جنم بھومی تحریک اپنے عروج پر تھی تو اس وقت ایک نعرہ زور و شور سے لگایا جا رہا تھا۔’ایودھیا صرف ایک جھلک ہے، کاشی-متھرا ابھی باقی ہے۔’اس کا مطلب یہ تھا کہ رام جنم بھومی تنازع ختم ہونے کے بعد کاشی کی گیانواپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد پر بھی مندر کے جگہ تعمیر کیے جانے کے دعوؤں کو بڑھاوا دیا جائے گا۔سنہ 2019 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے ایودھیا میں رام مندر اور بابری مسجد کے معاملے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ اس وقت کم از کم 12 مذہبی مقامات اور یادگاروں کے خلاف ایسے مقدمات چل رہے ہیں۔ان مقدمات میں موجودہ مساجد، درگاہوں اور یادگاروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں مندر گرانے کے بعد تعمیر کیا گیا تھا اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انھیں ہندوؤں کے حوالے کر دیا جائے۔اس کے لیے سروے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے تاکہ شواہد اکٹھے کیے جا سکیں۔

دوسری طرف، ان مقدمات میں مسلم فریق عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ ایسے معاملات عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے قانون کے خلاف ہیں۔کاشی اور متھرا کے مقدمات بہت زیر بحث ہیں لیکن حال ہی میں سنبھل کی جامع مسجد بھی سرخیوں میں رہی۔ یہاں سروے کے دوران ہوئے تشدد میں پانچ لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔جب سپریم کورٹ میں سنبھل کیس کی سماعت ہو رہی تھی اس دوران مسلم فریق کے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے بھی عدالت کو بتایا کہ ملک میں اس طرح کے کم از کم 10 تنازعات کے مقدمات چل رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ فضیل احمد ایوبی، جو مسجد مندر کے معاملات میں ملوث ہیں،ہم نے اس حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں اس طرح کے مشہور تنازعات کا جزئزہ لیا گیا ہے

جامع مسجد اور درگاہ شیخ سلیم چشتی، فتح پور سیکری، اتر پردیش

آگرہ سے فتح پور سیکری 40 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں سولھویں صدی میں تعمیر ہونے والی جامع مسجد ہے جس کے اندر صوفی بزرگ سلیم چشتی کی درگاہ بھی ہے۔سنہ 2024 میں ایڈوکیٹ اجے پرتاپ سنگھ نے آگرہ کی ایک عدالت میں اس کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سلیم چشتی کی درگاہ کامکھیا دیوی کے مندر کو گرا کر اس جگہ پر بنائی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ درگاہ سولھویں صدی میں بنی تھی لیکن اس سے پہلے وہاں مندر موجود تھا۔اس سے پہلے بھی اجے پرتاپ سنگھ نے آگرہ کی عدالت میں ایک اور مقدمہ دائر کیا تھا کہ آگرہ کی جامع مسجد کے نیچے کٹرا کیشو دیو کی مورتیاں ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہندوؤں کو مساجد اور درگاہوں کے لیے جگہ دی جائے۔ یہ مقدمہ فی الحال زیر التوا ہے۔ اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ، درگاہ اور مسجد مینجمنٹ کمیٹی اس مقدمے کی مخالفت کر رہی ہے۔

اٹالہ مسجد جونپور، اتر پردیش

اتر پردیش کے علاقے جونپور کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ اٹل ماتا کے مندر کو گرا کر اٹالہ مسجد بنائی گئی تھی۔اٹالہ مسجد 1408 میں تعمیر کی گئی۔ 2024 میں ہندو تنظیم سوراج واہنی نے جونپور میں دائر ایک درخواست میں کہا تھا کہ فیروز شاہ تغلق نے ایک ہندو مندر کو گرا کر یہ مسجد بنائی تھی۔اس درخواست کی محالفت بھی اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ کر رہا ہے۔اکتوبر 2024 میں، جونپور کی ایک سول عدالت نے حکم دیا کہ متھرا اور گیانواپی میں مندر-مسجد کے مقدمات کی طرح اٹالہ مسجد کیس کی بھی سماعت کی جا سکتی ہے۔
شمسی جامع مسجد، بداون، اتر پردیش

یہ مسجد تیرھویں صدی میں سلطنت دہلی کے شمس الدین التمش نے بنوائی تھی۔ سنہ 2022 میں، بدایوں ڈسٹرکٹ کورٹ میں آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے کنوینر مکیش پٹیل نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس مسجد کے بجائے پہلے نیل کنٹھ مہادیو کا مندر ہوا کرتا تھا، جسے گرا کر یہ مسجد بنائی گئی۔درخواست گزار کا مطالبہ ہے کہ انھیں یہاں پر عبادت کی اجازت دی جائے۔مسجد کی انتظامی کمیٹی اور اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ بھی اس عرضی میں فریق ہیں، جنھوں نے کہا کہ اس معاملے کی عدالت میں سماعت نہیں کی جا سکتی۔ مسلم فریق کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمہ عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کے خلاف ہے۔اس معاملے کی سماعت دسمبر میں شروع ہونے والی ہے۔

ٹیلے کی مسجد لکھنؤ، اتر پردیش

یہ ایک پرانا کیس ہے جو 2013 سے چل رہا ہے۔ اس کے بعد لارڈ شیشناگیش تلیشور مہادیو ویراجمان کے نام پر درخواست دائر کی گئی کہ مغل حکمران اورنگزیب نے ایک ہندو عبادت گاہ کو گرا کر یہ مسجد بنائی تھی۔سنہ 2017 میں، لکھنؤ کے ایک سول جج نے فیصلہ دیا کہ یہ مقدمہ قابل سماعت ہے اور یہ عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کے خلاف نہیں جاتا ہے۔ اس معاملے پر اپیل اب بھی الہ آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔

کمال مولا مسجد دھر، مدھیہ پردیش

ہندو فرنٹ فار جسٹس نامی تنظیم نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کروائی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ مسجد کی تعمیر تیرھویں سے چودھویں صدی میں علاؤالدین خلجی کے دور میں شروع ہوئی۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت یہاں بھوج شالا وگدیوی کا مندر ہوا کرتا تھا جسے گرا کر یہ مسجد بنائی گئی۔ سنہ 2022 کی پٹیشن میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے مسجد میں سروے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔مارچ 2024 میں ہائی کورٹ نے اس سروے کی اجازت دی تھی اور پھر حکم دیا کہ سروے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے بغیر مسجد میں چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔یہ معاملہ ابھی زیر التوا ہے اور یہاں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا سروے مکمل ہو چکا ہے۔

اجمیر شریف درگاہ، راجستھان

اس سال راجستھان کے اجمیر شہر میں صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے اجمیر کی مقامی عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ درگاہ کے نیچے شیو مندر ہے۔ وشنو گپتا نے اپنی درخواست میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے سروے کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ درگاہ کی جگہ دوبارہ مندر تعمیر کیا جائے۔اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے، اجمیر مغربی کے سول جج منموہن چندیل کے بنچ نے 27 نومبر کو اقلیتی امور کی وزارت، درگاہ کمیٹی اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو نوٹس جاری کیا۔ اس کی اگلی سماعت 20 دسمبر کو ہوگی۔

بابا بڈانگیری- درگاہ چکمگلور، کرناٹک

چکمگلور کے بابا بڈانگیری میں صوفی بزرگ دادا حیات (بابا بڈھان) کی درگاہ ہے۔اس کے علاوہ وہاں ہندوؤں کا دتاتریہ مندر بھی ہے۔ اس جگہ کو عام طور پر جنوب کی ایودھیا بھی کہا جاتا ہے۔سنہ 1970 کی دہائی میں یہ جگہ کرناٹک حکومت نے وقف بورڈ کو دے دی تھی۔ پھر اس پر کافی تنازع ہوا اور معاملہ عدالت تک بھی پہنچ گیا۔سنہ 1980 میں عدالت نے کہا کہ یہ وقف املاک نہیں ہے اور یہاں ہندو اور مسلمان دونوں نماز ادا کرتے ہیں۔یہ معاملہ ابھی تک کرناٹک ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ 2021 میں، بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی سی ٹی روی نے کہا تھا کہ اس عبادت گاہ پر صرف ہندوؤں کا حق ہے۔

قطب مینار، دہلی

دہلی کے مشہور قطب مینار میں واقع قوۃ الاسلام مسجد پر بھی تنازع ہے۔ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین کی طرف سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ کئی ہندو مندروں کو گرا ان کی جگہ مسجدیں بنائی گئیں۔ درخواست میں ہندوؤں کو دوبارہ وہاں عبادت کرنے کی اجازت بھی مانگی گئی ہے۔سنہ 2021 میں ایک سول عدالت نے اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں سے حال اور مستقبل کے امن کو خراب نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دوبارہ اپیل دائر کی گئی جو ابھی تک زیر التوا ہے۔

جمعہ مسجد، منگلورو، کرناٹک

منگلورو کی جمعہ مسجد بھی کچھ سالوں سے تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔سنہ 2022 میں کرناٹک کی ایک عدالت نے وشو ہندو پریشد کے ایک رکن کی طرف سے دائر درخواست پر کہا تھا کہ یہ عبادت گاہوں کے قانون کے خلاف نہیں ہے۔وشو ہندو پریشد نے اپنے درخواست میں کہا تھا کہ مسجد کے نیچے ایک مندر ہے اور انھوں نے سروے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ یہ مقدمہ فی الحال منگلورو کی ضلعی عدالت میں زیر التوا ہے۔ان سب کے علاوہ اور بھی کئی مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔

گیانواپی مسجد- وارانسی، اتر پردیش

وارانسی کی گیانواپی مسجد کے خلاف 1991 سے کیس چل رہے ہیں، لیکن 2021 میں ایک نئے کیس کے بعد یہ مقدمہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔بہت سے طریقوں سے، یہ کیس تمام زیر التوا مندر-مسجد کے مقدمات میں سب سے آگے ہے۔اس میں بھگوان وشویشور کے بھکتوں نے 1991 میں مقدمہ درج کرایا تھا۔ اس کے بعد 2021 میں پانچ خواتین نے ایک اور پٹیشن دائر کی، جس میں انھوں نے مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت مانگی اور یہ بھی کہا کہ مسجد میں ماں شرنگر گوری، بھگوان گنیش اور بھگوان ہنومان کی مورتیاں ہیں جن کی حفاظت کی جانی چاہیے۔درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ مغل حکمران اورنگزیب نے مندر کو گرا کر یہ مسجد بنائی تھی۔اس معاملے میں دو سروے کرائے گئے ہیں – ایک عدالت کی طرف سے اور ایک آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی طرف سے۔وارانسی کی ضلعی عدالت کے فیصلے کے بعد فروری 2024 سے مسجد کے ایک تہہ خانے میں بھی عبادت شروع ہو گئی ہے۔ 2023 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ درخواستیں عبادت گاہوں کے قانون کے خلاف نہیں ہیں۔اب بھی یہ تمام مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

شاہی عیدگاہ مسجد- متھرا، اتر پردیش

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد بھگوان کرشن کی جائے پیدائش پر بنائی گئی ہے۔ 2020 میں، چھ عقیدت مندوں نے ایڈوکیٹ رنجنا اگنی ہوتری کے ذریعے سے ایک درخواست عدالت میں دائر کی، جس میں مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اب اس معاملے میں 18 درخواستیں ہیں۔اگست 2024 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ درخواستیں بھی عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے خلاف نہیں جاتی ہیں۔سنہ 2023 میں ہائی کورٹ نے ایک کورٹ کمشنر مقرر کیا تھا جو مسجد کا سروے کر سکتا تھا، لیکن جنوری 2024 میں، سپریم کورٹ نے اس پر عبوری روک لگا دی تھی، جو ابھی تک نافذ ہے۔اس کی اگلی سماعت دسمبر 2024 میں سپریم کورٹ میں ہونے والی ہے۔

جامع مسجد- سنبھل، اتر پردیش

گذشتہ دنوں یہ معاملہ کافی خبروں میں رہا ہے۔ ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین نے نومبر 2024 میں ایک درخواست میں کہا تھا کہ بھگوان کلکی کے اوتار شری ہریہر مندر کو منہدم کرکے جامع مسجد بنائی گئی تھی۔اس کے بعد عدالت نے کمشنر مقرر کر کے سروے کرایا۔ سروے رپورٹ مقامی عدالت میں پیش کر دی گئی ہے۔اس کی اپیل ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ 29 نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے کہا کہ سروے کے بعد کی رپورٹ کو سیل رکھا جائے اور ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر اس معاملے میں مزید کچھ نہ کیا جائے۔

آگے کیا ہو گا؟

ان مقدمات کے علاوہ اور بھی کئی عبادت گاہیں ہیں جو متنازعے ہیں۔ وشنو شنکر جین، جو کہ بہت سے مسجد-مندر کے معاملات میں ملوث ہیں، اپنے کئی پچھلے انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا مقصد ماضی میں منہدم کیے گئے تمام مندروں کی تعمیر نو کے لیے مقدمات درج کرنا ہے۔مغربی بنگال کے مالدہ میں واقع آدینا مسجد کے بارے میں بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسے مندر گرا کر بنایا گیا تھا۔مدھیہ پردیش میں بیجمنڈل مسجد کو لے کر کچھ عرصے سے تنازعہ چل رہا ہے۔ جب آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے کہا کہ یہ مسجد ہے تو اگست 2024 میں وہاں کے ایک وکیل نے انھیں قانونی نوٹس بھیجا تھا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔اجمیر درگاہ کیس دائر کرنے والے وشنو گپتا نے پہلےہی  بتایا تھا کہ ان کی اگلی درخواست دہلی کی جامع مسجد کے خلاف ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے