کشمیر ایک جیک پاٹ لاٹری

nayeema-new.jpg

جب کوئی سیاسی جماعت کسی خطے کو بے اختیار کرنے یا بے بس بنانے کی پالیسی پر جشن منا کر اسے انتخابی ایجنڈا بنائے اور جذباتی ووٹ حاصل کرنے کے جتن کرے تو اس پارٹی یا پارٹی کے عہدے دار وں کا معائنہ کرنا ضروری بنتا ہے۔ایک جانب (انڈیا کے زیر انتظام) جموں و کشمیر پر جبری فیصلے کر کے اپنا حق جتانا پھر دوسری جانب یہاں کے عوام پر طعنے کس کر اشتعال دلانا پست ذہنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔یہ رائے دلی کے سیاسیات کے ایک پروفیسر اروند رینہ کی ہے، جو کہتے ہیں کہ انڈین انتخابات میں کشمیر کو زیر کرنے کی پالیسی کے عوض ووٹ مانگے جا رہے ہیں، جو یقنناً ذہنی پستی کی علامت ہے۔

آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ انڈیا کی دو ریاستوں مہاراشڑ اور جھارکھنڈ میں حالیہ انتخابی مہم کے دوران دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو اندرونی خود مختاری سے بے دخل کرنے پر کافی چرچہ ہوا۔ دونوں جماعتوں نے اسے ختم کرنے کا سہرا اپنے سر باندھا۔لگتا تھا کہ جیسے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے پاس کوئی اور مدعا یا ایجنڈا بیچنے کے لیے باقی نہیں رہا ہے کہ وہ (انڈیا کے زیر انتظام) جموں و کشمیر سے متعلق بیانات دے کر یہ بتانے کے جتن کر رہی تھیں کہ اس خطے کو ریاست کے درجے سے گرا کر یونین ٹیریٹری بنانے سے انڈیا کی سالمیت اور وحدت کو بچایا گیا ہے۔

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق انڈین انتخابات میں کشمیر اب انتخابی جیک پاٹ لاٹری بن گیا ہے اور جذباتی بیانات سے ووٹروں کو ورغلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بی جے پی نے پہلے بھی ویسے ہر انتخاب میں کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کی خوب بِکری کی اور اسے سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر بے اختیار کرنے کی پالیسی کے بدلے میں عوام سے ووٹ مانگے۔ مگر یہ پہلی بار ہے کہ دو ریا ستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے بھی بار بار یہ بیانیہ دہرایا کہ وہ اپنی اتحادی جماعت نیشنل کانفرنس کے منشور میں شامل آرٹیکل 370 کی بحالی کی حمایت نہیں بلکہ صرف ریاستی درجے کی بحالی تک محدود ہے۔

خود نیشنل کانفرنس نے اسمبلی میں جو خصوصی پوزیشن سے متعلق قرارداد پاس کی اس میں نہ آرٹیکل 370 کا ذکر ہے اور نہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے کی مذمت کی گئی ہے بلکہ وہ قرارداد صرف ریاستی درجہ اور خصوصی پوزیشن واپس لانے تک محدود رکھی گئی ہے، جو انڈیا کی دو درجن سے زائد ریاستوں کو حاصل ہے اور اس اندرونی خود مختاری سے مختلف ہے، جو الحاق ہندوستان کے بدلے میں آئین ہند میں جموں و کشمیر کے بارے میں درج کر دی گئی تھیں۔کانگریس کے سربراہ ملک ارجن کھرگے نے پریس کانفرنس بلا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کی پارٹی نے (انڈین) جموں وکشمیر کی اندرونی خودمختاری کو پہلے ہی کھوکھلا کر دیا تھا اور وہ صرف ریاستی درجہ دینے تک نینشنل کانفرنس کے اتحادی بنے ہیں۔

(انڈیا کے زیر انتظام) جموں و کشمیر کے عوام کو کانگریس کے بیانات سے شدید تکلیف پہنچی۔ خصوصاً انہیں جنہوں نے حال ہی میں کانگریس کو مسلم علاقوں میں چھ نشستوں سے جتایا تھا، جبکہ بی جے پی نے جموں میں اس کا پہلے ہی صفایا کر دیا ہے۔سوشل ایکٹیوسٹ عمران علی کہتے ہیں کہ جہاں نیشنل کانفرنس نے کانگریس کو اتحادی بنا کر (انڈین) جموں وکشمیر میں اس کو چند سیٹیں دلوائیں ہیں، وہیں کشمیری ووٹروں نے نینشنل کانفرنس کو بستر مرگ سے واپس لا کر نئی زندگی عطا کر دی، جب اس کو آرٹیکل 370 کی بحالی کے واحد ایجنڈا پر بھاری اکثریت سے جتایا گیا۔

نمائندہ بصیر میڈیا سے گفتگو میں عمران علی کا کہنا تھا کہ ’چند ہفتوں کے بعد ہی نیشنل کانفرنس نے اپنا اصلی رخ دکھایا اور بی جے پی کی زبان استعمال کر کے عوام میں بے چینی اور مایوسی پیدا کر دی ہے۔ عوامی حلقے سمجھتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس پھر اپنے مؤقف سے ہٹ رہی ہے اور 1977 میں اندرا عبداللہ معاہدے کے دوران ان سارے قوانین کے اطلاق کو قبول کردیا تھا، جو 1953 میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے بعد اندرونی سالمیت پر ضرب لگا کر ریاست پر عائد کر دیے گئے تھے۔بی جے پی کا ماننا ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے سے اس نے (انڈین) جموں و کشمیر کو انڈیا میں مکمل طور پر ضم کردیا ہے اور اسے یونین ٹیریٹری بنا کر عوام سے جہاں پہلے آزادی کا بیانیہ چھینا وہیں اب اسے بے اختیار کر کے مرکز کے ریموٹ کنڑول پر چھوڑ دیا ہے۔

(انڈین) جموں و کشمیر میں انتخابات کروائے گئے لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی انتخابی نتائج کی تشریح بدل دی گئی ہے۔پہلے آزادی پسندوں کو سیاسی منظر نامے سے ہٹایا گیا اب مین سٹریم کو انتخابات کے باوجود اختیارات سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔اسمبلی اگر بنی تو یہ کس لیے بنی، جب اس کے پاس اختیار ہی نہیں۔ این سی کی سرکار اب تک عوام کو 200 یونٹ بجلی دینے کا وعدہ بھی پورا نہیں کر پائی ہے، جو اس نے اپنے منشور میں پہلے ہفتے میں جاری کرنے کی حامی بھری تھی۔

واضح رہے کانگریس کی حکومت نے 1947 میں (انڈین) جموں و کشمیر کے مقبول ترین رہنما شیخ محمد عبداللہ کو شیشے میں اتار کر ان سے انڈیا سے الحاق کی حامی بھر والی تھی اور اس وقت اندرونی خودمختاری کا وعدہ نہ صرف پارلیمان کے ایوانوں میں کیا گیا تھا بلکہ اقوام متحدہ کو یقین دلایا گیا تھا کہ دونوں ممالک پاکستان اور انڈیا کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل تک یہ اس قوم کے لیے اندرونی سالمیت کی ایک عارضی گارنٹی رہے گی۔مگر کانگریس نے ہر بار (انڈین) جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن پر صدارتی یا پارلیمانی حکم ناموں سے اتنے وار کیے کہ جن کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔

جب حال ہی میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے بیچ گٹھ جوڑ ہوا تو عوام کے بڑے طبقے نے سمجھا کہ راہول گاندھی کی سربراہی میں کانگریس کو اپنی کشمیر پالیسی پر ندامت ہوئی ہے اور وہ موجودہ حالات کے پیش نظر اس کی اپنی ساخت، خصوصی پوزیشن اور حقوق واپس لانے میں عوام کا ساتھ دے گی، جس کے پیش نظر اس پارٹی کو چند سیٹیں دلوائیں گئیں لیکن دو ریاستوں میں انتخابات جیتنے کے لیے یہ ڈیڑھ کروڑ کشمیری آبادی کی خواہشات کا بلیدان دینے میں ذرا بھی نہیں ہچکچائیبی جے پی سے کوئی امید تو نہیں ہے جن کو (انڈین) کشمیری عوام نے بری طرح ہرا کر پیغام دیا کہ وہ اس کی پالیسی، سوچ اور منصوبوں کو کبھی نہیں مانتی۔

ہندوتوا پارٹی نے آرٹیکل 370 کو بیچ کر اپنا ایجنڈا جاری رکھا مگر کانگریس اس سے بھی خطرناک ایجنڈا چلانے لگی ہے۔کشمیری ووٹر مخمصے میں ہیں کہ نیشنل کانفرنس اور اس کی اتحادی کانگریس کو ووٹ دے کر کیا انہیں پانچ سال تک پھر سختیاں برداشت کرنا ہوں گی اور کیا این سی نے دوبارہ ووٹر کو شیشے میں اتار کر پانچ اگست 2019 کے فیصلے کو قانونی جواز بخشا ہے؟عمران علی کہتے ہیں کہ ’اگر این سی سمجھتی ہے کہ وہ پانچ برس تک اقتدار میں ہے اور کوئی اب کچھ نہیں کر سکتا مگر جمہوریت کی یہی بڑی خرابی ہے کہ لمحوں میں حالات ایسے بدل جاتے ہیں، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔

عوام نے اس بار بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا کیونکہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا لہذا نینشل کانفرنس کو مجبوراً ووٹ دینا پڑا ورنہ نیشنل کی حالت دوسری ان جماعتوں سے بدتر تھی جن کا شیرازہ یا تو بکھر چکا ہے یا ان کو بی جے پی کی اے ٹیم یا بی ٹیم بنا کر مشکوک بنا دیا گیا ہے۔گو کہ لوگوں میں نیشنل کانفرنس کے خلاف منفی سوچ ابھر رہی ہے تاہم سوشل میڈیا پر آج کل کشمیری عوام اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے پر زور دے رہے ہیں، منظم اور متحد اپوزیشن کا رول نبھانے کی تیاری کر رہے ہیں اور حکمران جماعت سے اپنے ووٹ کا حساب چکانے کے مطالبے کر رہے ہیں۔عوام اور حکمران جماعت کے بیچ پیدا ہونے والی تلخی پر بی جے پی کے وارے نیارے ہو رہے ہیں، جس کے پٹارے میں ابھی اور بھی سرپرائزز باقی ہیں۔

کالم نگار نعیمہ احمد مہجور سینیئر صحافی اور مصنفہ ہیں۔ ان کا تعلق انڈین کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے