حزب اللہ کا فولادی عزم اور غاصب اسرائیلی انٹیلیجنس!

678469cb-2948-454f-befd-9e38460afd4b_16x9_1200x676.jpg

دنیا کے سامنے ایک اور حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل کی جارحیت اور اس کے انٹیلیجنس نظام کی بنیادیں بکھر رہی ہیں۔ ایران کے مشاورِ ثقافتی و میڈیا امور، مقدّم‌فر نے حالیہ بیان میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے اپنے 30 سالہ انٹیلیجنس ذخیرے کو لبنان اور حزب اللہ کے خلاف استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس بیان کے پس منظر میں ایک گہرا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس پورے واقعے کی تہہ تک پہنچا جا سکے اور یہ سمجھا جا سکے کہ خطے میں جاری اس تنازع کی کیا حقیقت ہے۔

اسرائیلی انٹیلیجنس نے 30 سال کے عرصے میں جو معلومات جمع کیں، وہ حزب اللہ اور لبنانی مقاومتی مجاہدین کے خلاف ایک بڑی جنگی اسٹریٹیجی کے تحت استعمال کی گئیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر اسرائیل نے جدید تکنیکی حربے استعمال کیے، جن میں پیچیدہ پیجرز اور وائرلیس کمیونیکیشنز شامل تھے، تاکہ حزب اللہ کے اہم مراکز اور ان کے قائدین کو نشانہ بنایا جا سکے۔ لیکن یہ حملے، جو کہ بڑی باریکی سے منصوبہ بند تھے، صرف کچھ محدود کامیابیاں ہی حاصل کر سکے۔ نتیجتاً، سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین اور دیگر اہم رہنما شہید ہوئے؛ لیکن اسرائیل کی امید کے برعکس، یہ نقصان حزب اللہ کے حوصلے کو کمزور کرنے میں ناکام رہا۔

مقدّم‌فر کے مطابق، اسرائیل نے یہ آخری حربہ اس وقت استعمال کیا جب اسے محسوس ہوا کہ اب میدان جنگ میں اسے ہزیمت کا سامنا ہے۔ یہ قدم اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی مایوسی اور استیصال کی علامت ہے۔ ایک ایسی ریاست جو خود کو خطے کی مضبوط ترین انٹیلیجنس اور ملٹری پاور سمجھتی تھی، آج اسی خطے میں شکست کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے 30 سالہ انٹیلیجنس ذخیرے کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف ہر ممکنہ ہتھکنڈا آزما لیا؛ لیکن پھر بھی وہ حزب اللہ کی استقامت کو توڑنے میں ناکام رہا۔

حزب اللہ کی مقاومت اور ان کے جانباز سپاہیوں کا حوصلہ اس پوری جنگ میں ایک فیصلہ کُن عنصر ثابت ہوا ہے۔ اسرائیل نے حملے کی شدت اور انٹیلیجنس کی بنیاد پر کامیابی کی توقع کی تھی؛ لیکن حزب اللہ کے جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر دشمن کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ یہ حقیقت اسرائیل کے لیے ایک بڑی شکست ہے، جو اس کے انٹیلیجنس نظام اور اس کی جنگی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔

مقدّم‌فر کے بیان سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس تنازعے کا نتیجہ نہ صرف اسرائیل کی شکست بلکہ پورے خطے کے لیے ایک پیغام ہے۔ اسرائیل کی جارحیت کا مقصد لبنان اور فلسطین میں اسلامی مقاومت کو ختم کرنا تھا؛ لیکن حزب اللہ کی ثابت قدمی اور ان کی کامیاب دفاعی حکمت عملی نے اسرائیل کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔مقام معظم رہبری سید علی خامنہ ای نے پہلے ہی اس بات کی پیشگوئی کر دی تھی کہ خدا کی سُنتیں اور الٰہی وعدے ہمیشہ پورے ہوتے ہیں۔ اسرائیل کی شکست اور حزب اللہ کی فتح اس پیشگوئی کا عملی مظہر ہیں۔ یہ فتح صرف ایک جنگی کامیابی نہیں بلکہ ایک نظریاتی کامیابی ہے، جو اسلامی مقاومت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسرائیل کی اس ہزیمت کا اثر عالمی سطح پر کس طرح ہو گا؟ مغربی دنیا، جو ہمیشہ اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش رہی ہے، کیا اب اسرائیل کی انٹیلیجنس کی ناکامی اور اس کی فوجی طاقت کے کمزور ہونے کے بعد اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے گی؟ اسرائیل کی اس شکست نے مغربی دنیا کے لیے بھی ایک واضح پیغام چھوڑا ہے کہ خطے کی صورتحال کو زبردستی کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔

حزب اللہ کی اس کامیابی نے دنیا کو یہ درس دیا ہے کہ مضبوط عزم اور ایمان کی بدولت بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔ یہ فتح ان لوگوں کے لیے بھی ایک درس ہے جو ظلم و استبداد کے خلاف کھڑے ہونے سے گھبراتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کربلا سے یہ پیغام ملتا ہے کہ جب حق اور باطل کی جنگ ہوتی ہے تو عددی برتری اور اسلحہ کی طاقت فیصلہ کن نہیں ہوتی، بلکہ ایمان اور عزم کی قوّت ہوتی ہے۔

مقدّم‌ فر کا بیان اور اسرائیل کی 30 سالہ انٹیلیجنس کا ناکام استعمال اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خطے میں مقاومتی قوّتوں کی فتح قریب ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے الفاظ آج ایک حقیقت بن کر سامنے آ رہے ہیں کہ "پیروزی از آنِ جبهه مقاومت است” یعنی "فتح مقاومتی محاذ کی ہوگی”۔ آج جب دنیا بھر میں فلسطین اور لبنان کے لیے حمایت کی لہر بڑھ رہی ہے، یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مظلوم قوموں کی استقامت اور قربانیوں کے نتیجے میں ایک نئی دنیا کی تشکیل ہو رہی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ حزب اللہ کی یہ کامیابی نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر ایک نئی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مقاومت کو دبانا ممکن نہیں اور جو قومیں اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی ہیں، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتیں۔ آج ہمیں بھی اپنے ضمیر کو جگانے اور مظلوموں کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم تاریخ کے صحیح رُخ پر کھڑے ہوں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے