کیا ٹرمپ اور پوتن کی دوستی میں گرمجوشی ختم ہو گئی ہے؟

378038-1763792523.jpg

کم از کم کہنے کی حد تک ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پوتن کے درمیان تعلقات پیچیدہ ہیں۔کچھ زیادہ عرصہ پہلے کی بات نہیں، اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران، ٹرمپ روسی رہنما کو پسند اور ان کی تعریف کرتے نظر آئے۔ بلاشبہ وہ انہیں اپنے جیسا سمجھتے تھے، یعنی چالاک، بے خوف، آمرانہ مزاج رکھنے والے اور شکاری۔2018 کی ہیلسنکی سمٹ میں ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے خفیہ اداروں کے مقابلے میں اس آمر کے الفاظ پر زیادہ بھروسہ کرنے کو تیار ہیں۔ اس بیان نے، نرم الفاظ میں کہیں تو، بڑی ہلچل مچائی۔مبصرین حیران تھے کہ پوتن کے پاس ایسی کیا خوفناک خفیہ معلومات ہو سکتی ہیں کہ جن کی وجہ سے ٹرمپ نے ایسا رویہ اختیار کیا کہ گویا جاسوسی فلم ’دا مینچورین کینڈیڈیٹ‘ کا کوئی منظر ہو۔

جب ٹرمپ صدر نہیں تھے تو یوکرین پر روس کے بڑے حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پوتن کی دلیری کی تعریف کی۔2022 میں روس کی بدقسمت ’خصوصی فوجی کارروائی‘ کے آغاز کے فوراً بعد، مار اے لاگو میں فنڈ اکٹھے کرنے کی ایک تقریب کے دوران ٹرمپ نے کہا: ’لوگ کہتے ہیں ’ٹرمپ نے پوتن کو ہوشیار کہا۔‘ میرا مطلب ہے کہ وہ صرف دو ڈالر کی پابندیوں کے بدلے ایک پورے ملک پر قبضہ کر رہا ہے۔ میں کہوں گا یہ کافی ہوشیاری ہے۔ وہ ایک ملک پر قبضہ کر رہا ہے۔ واقعی ایک وسیع و عریض زمین، شاندار جگہ، بڑی آبادی کے ساتھ اور بس یونہی آگے بڑھ رہا ہے۔اس کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایک دن میں جنگ ختم کر سکتے ہیں۔ اس بات کو عام طور پر یہ سمجھا گیا کہ وہ یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور پوتن کو اپنی غیر قانونی علاقائی فتوحات برقرار رکھنے دیں۔

لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ’دوستی‘ کی گرمجوشی ختم ہو گئی ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ مثال کے طور پر کسی قصبے میں جو دو غنڈوں کے لیے کافی بڑا نہ ہو، جیسا کہ دونوں کے درمیان ہوتا ہے، وہ دوست سے حریف بن رہے ہوں؟شاید ان کے مفادات اب اتنے ہم آہنگ نہیں رہے، کیونکہ حال ہی میں دوبارہ منتخب ہونے والے امریکی صدر یہ نہیں چاہتے کہ ولادی میر پوتن بہت زیادہ طاقتور ہو جائیں۔ ٹرمپ یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے دور صدارت میں روس یوکرین میں فتح حاصل کرے، کیونکہ اسے لازمی طور پر دنیا بھر میں یہ امریکہ (اور ٹرمپ) کی ایک اور شکست کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اسے کابل میں ناکامی کی طرح لیا جائے گا، جہاں جو بائیڈن کی صدارت کے ابتدائی مہینوں میں اتحادی افواج کے افراتفری سے بھرے انخلا کو طالبان کے ساتھ ہونے والے ہتھیار ڈالنے کے اس معاہدے نے پہلے ہی طے کر دیا تھا، جس پر ٹرمپ سے ہوشیاری کے ساتھ دستخط کروائے گئے۔

کسی بھی صورت میں دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلے جیسی گرمجوشی اب یقیناً نظر نہیں آتی۔ جب پوتن نے شرارتی انداز میں کہا کہ وہ انتخاب میں کملا ہیرس کی حمایت کر رہے ہیں، تو شاید وہ محض مذاق کر رہے تھے لیکن انتخاب کے بعد سے ماسکو ٹرمپ کے بارے میں خاموش ہے، سوائے ان کی ماضی کی بہادری کو سراہنے کے، جب وہ قاتلانہ حملوں سے بچ نکلے۔پوتن نے اپنے ہم منصب کو مبارکباد دینے میں وقت لیا۔ کریملن کے وہ ٹی وی چینلز، جو اکثر ٹرمپ کی چاپلوسی میں مصروف رہتے تھے، 2016 کے مقابلے میں اس بار ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر زیادہ شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔

جب دونوں رہنماؤں نے تاخیر کے ساتھ فون پر بات کی تو ٹرمپ اس بار زیادہ سخت اور حتیٰ کہ کچھ دھمکی آمیز نظر آئے، بالکل ایسے جیسے کوئی مافیا لیڈر اپنے حریف کو اپنے علاقے سے دور رہنے کے لیے تنبیہ کرے۔ امریکی روداد کے مطابق ٹرمپ نے پوتن کو ’یورپ میں واشنگٹن کی بڑی فوجی موجودگی‘ دلائی۔ انہوں نے اپنے حریف کو یوکرین میں جنگ مزید بڑھانے کے معاملے میں خبردار کیا۔ کوئی بھی مافیا لیڈر حلف برداری کی تقریب سے پہلے شرمندگی نہیں چاہتا اور ٹرمپ کی یہ تقریب 20 جنوری کو ہونے والی ہے۔

جہاں تک ٹرمپ کی زیلنسکی کو کال کا تعلق ہے، جس میں بعض اوقات ایلون مسک بھی شامل ہوئے، تو اس کی تفصیلات کم واضح ہیں۔ تاہم یہ معلوم ہے کہ مسک نے یوکرین کو اپنے سٹارلنک سیٹلائٹ نیٹ ورک تک رسائی فراہم کی، گو کہ مقبوضہ کرائمیا میں نہیں۔ مسک اور پوتن کے تعلقات کو سمجھنا خاصا مشکل ہے۔آخرکار یہ کہنا افسوسناک ہے کہ زمینی حقائق سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو روس کو کرائمیا اور یوکرین کے مشرق سے نکالنے کے لیے نیٹو کی مداخلت کے حامی ہیں، جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔مغرب نے یوکرین کو اتنی مدد فراہم کی کہ وہ امید قائم رکھ سکے، جنگ جاری رکھ سکے اور شکست سے بچ سکے لیکن اسے جیتنے کے لیے درکار امداد کبھی فراہم نہیں کی گئی۔ یہ امکان کم ہے کہ ٹرمپ ایسا کریں گے۔ چاہے اچھا لگے یا نہ لگے، امن کے لیے کوئی ’سمجھوتہ‘ ہوگا، لیکن ٹرمپ کی انا اور امریکہ کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ یہ سمجھوتہ صدر پوتن کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

آخرکار یوکرین ’ایک شاندار سر زمین ہے جس کی بڑی آبادی ہے۔‘ اور یہ امریکہ کے لیے، حتیٰ کہ خود ٹرمپ کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ نو منتخب صدر ٹرمپ اپنے ’سودے بازی کے فن‘ کے ماہر ہونے پر فخر کرتے ہیں، اور اس میں ان کے لیے کچھ نہیں ہوگا اگر وہ پوتن کو پورے ملک پر قبضہ کرنے دیں۔ ان کے ’مشیر‘ برائن لینزا، کو اس تجویز پر نظرانداز کر دیا گیا کہ یوکرین کا دفاع کرنا امریکہ کے مفاد میں نہیں، حالانکہ زیلنسکی پر بچگانہ طنز کرنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا۔درحقیقت یہ بات بالکل واضح معلوم ہوتی ہے کہ ٹرمپ اپنی پہلی بڑی غیر ملکی حکمت عملی کو یوکرین میں مکمل بے عزتی کے طور پر دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ وہ زیلنسکی اور یورپی اتحادیوں کو کسی نہ کسی طرح معاہدے پر راضی کرنا چاہیں گے، چاہے وہ معاہدہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔پوتن پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ بہرحال ٹرمپ تعریف سے زیادہ احترام کے خواہشمند ہیں اور ’مشرقی دنیا‘ کے دو ابھرتے ہوئے عالمی گینگسٹرز، شی جن پنگ اور کم جونگ اُن، کسی بھی کمزوری کی علامات دیکھنے کے منتظر ہوں گے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے