عرب رہنماؤں کو ٹرمپ سے کیا توقعات ہیں؟

اراب-ترئمپ.jpg

عرب رہنماؤں نے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے فوری بعد انہیں مبارک باد کے پیغامات دیے ہیں۔ ان میں سے بعض رہنماؤں کو توقع ہے کہ ٹرمپ صدارت سنبھالنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں جاری تنازعات ختم اور ایران سے متعلق سخت موقف اختیار کریں گے۔سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز، ولی عہد محمد بن سلمان، متحدہ عرب امارات کے حکمران، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد نے ڈونلڈ ٹرمپ کو فتح کی مبارک باد دی ہے اور امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کو اہم قرار دیا ہے۔

بیروت کے ریسرچ سینٹر فور کوآپریشن اینڈ پیس کی صدر دانیہ خطیب کا کہنا ہے کہ ٹرمپ عرب رہنماؤں س اپنے ذاتی تعلقات پر زور دیتے ہیں آئے ہیں جب کہ بائیڈن کی اپروچ اس معاملے میں بتدریج آگے بڑھنے کی تھی۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عرب رہنما ٹرمپ سے چاہتے ہیں کہ وہ لبنان اور غزہ میں جنگ ختم کرائیں۔خطیب نے کہا کہ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں جو وعدے کیے تھے ان میں غزہ میں جنگ ختم کرانا بھی شامل تھا۔ لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ یہ کیسے کریں گے؟ کیا اس جنگ کا خاتمہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ ہو گا؟ فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو ایران پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول یہی سب بڑا مسئلہ ہے اور ٹرمپ کے لیے ایران کی صورتِ حال سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان واضح کر چکے ہیں کہ ان کا ملک غزہ میں جنگ کے خاتمے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا۔خلیج کی امیر عرب ریاستوں نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائے ہیں اور اسے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اسرائیل کے ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دیں گے اور ایسی کسی کارروائی میں سہولت کاری نہیں کریں گے۔

امریکی انتخابات پر اپنے ردِ عمل میں ایران نے نتائج کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسرائیل سے مقابلے کے لیے تیار ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں جاری تنازعات ختم کرانے کے لیے مذاکرات کی کوششوں میں شامل رہنماؤں اردن کے شاہ عبداللہ، مصر کے عبدالفتاح السیسی، لبنان کے نگراں وزیرِ اعظم نجیب نکاتی نے بھی ٹرمپ کو مبارک باد دی ہے۔عمان سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار عثمان الشریف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نیتن یاہو پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ جنوری میں ان کے حلف اٹھانے سے قبل جنگ ختم کردیں۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نیتن یاہو کو دو ٹوک انداز میں کہیں گے کہ 20 جنوری سے پہلے پہلے دونوں جنگیں ختم کریں اور خاص طور پر غزہ میں لڑائی روک دیں۔

ان کے بقول ٹرمپ کے نزدیک یہ جنگیں بہت زہریلی ہو چکی ہیں اور وہ اسے صدر بائیڈن کی حکومت کے دامن پر ایک داغ قرار دیتے آئے ہیں اور نائب صدر ہیرس کو بھی اس کی ذمے داری میں شامل کرتے ہیں۔عثمان الشریف نے کہا کہ ٹرمپ یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ اپنی صدارت کا آغاز ایسے حالات میں کریں جب بچوں کی ہلاکت اور اسپتالوں پر بمباری کی خبریں آ رہی ہوں۔نمائندہ بصیر میڈیا سے بات کرتے ہوئے الشریف نے کہا کہ ایران ٹرمپ کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو گا۔ ان کے بقول ٹرمپ امریکہ کو ہر بیرونی تنازع سے نکالنا چاہتے ہیں۔ البتہ انہوں نے پیش گوئی کی کہ ٹرمپ ایران کے خلاف پابندیاں مزید سخت کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید پابندیوں کے علاوہ ٹرمپ پوٹن کے ذریعے بھی تہران سے رابطے کر سکتے ہیں جو ایران کے قریبی اتحادی بن گئے ہیں۔ تاہم ان کے بقول اس بارے میں آنے والا وقت ہی بتائے گا۔البتہ احمد شریف نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ممکنہ طور پر اسرائیل کی دائیں بازوں کی حکومت کی جانب سے مغربی کنارے کے بڑے علاقے پر قبضے کو تسلیم کر سکتے ہیں اور ایسا ہوا تو حالات فلسطینیوں اور اردن کے لیے مزید پیچیدہ ہو جائیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے