"انروا” پر اسرائیلی پابندی کا اطلاق اور غزہ میں قحط سالی
اگر میرے لیے اور دس لاکھ پناہ گزینوں کے لیے، امداد بند ہو جاتی ہے تو ہم ختم ہو جائیں گے۔ ہم جنگ سے نہیں بھوک سے مر جائیں گے۔یہ الفاظ تھے 31 سالہ رضاکار ٹیچر عائشہ خالد کے جو غزہ میں ایک سال سے زیادہ کی جنگ میں زندہ بچ جانے کے بعد خوفزدہ ہیں کہ اگر اگلے سال اقوام متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی انروا پر اسرائیل میں کام کرنے پر پابندی سے متعلق نئے اسرائیلی قانون کے تحت اہم امداد بند ہو گئی تو وہ اور لاکھوں فلسطینی بھوک سے مر جائیں گے ،جن کی زندگی کے ہر پہلو کا انحصار اس ادارے پر ہے۔وسطی غزہ کے علاقے نوصیرات میں یو این آر ڈبلیو اے (انروا) کے ایک اسکول سے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن سے فون پر بات کرتے ہوئے عائشہ خالد نے کہا،”اگر اسکول بند ہو جائے تو ہم کہاں جائیں؟ ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں کا انحصار ایجنسی پر ہے: آٹا، خوراک، پانی، (طبی) علاج، اسپتال۔” انہوں نے مزید کہا ،” ہم خدا کے بعد ان پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
اس قانون کا نفاذ کب اور کہاں کہاں ہو گا؟
یہ قانون، جس پر بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے، جنوری کے اواخر میں نافذ ہونے والا ہے اور اس کے نتیجے میں عائشہ اور ان ہزاروں افراد تک ایک ایسے وقت میں امداد کا اہم ذریعہ بند ہو سکتا ہے جب ان کے اردگرد موجود ہر چیز کو تباہ کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے انروا پر پابندی کا قانون اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے، غزہ اور عرب مشرقی یروشلم پر لاگو ہوتا ہے،یہ وہ علاقے ہیں، جن پر اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ دوران قبضہ کر لیا تھا
قانون کے لیے اسرائیلی جواز
پابندی کے قانون کا مسودہ تیار کرنے والے اسرائیلی قانون سازوں نے انروا کے عملے کے ہزاروں ارکان میں سے مٹھی بھر پر گزشتہ سال جنوبی اسرائیل پر اس حملے میں ملوث ہونے کا حوالہ دیا جس کے نتیجے میں غزہ جنگ چھڑی اور انہوں نے کہا کہ کچھ اہلکار حماس اور دیگر مسلح گروپس کے ارکان تھے۔
پابندی کے اثرات
اس پابندی سے اسرائیل کا انروا کے ساتھ کئی دہائیوں پر محیط وہ معاہدہ ختم ہو جاتا ہے جس میں اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایجنسی کے تحفظ، نقل و حرکت اور سفارتی استثنیٰ کا احاطہ کیا گیا تھا۔غزہ کے UNRWA کی کمیونیکیشن آفیسر انس حمدان نے کہا کہ اگر گزشتہ ماہ منظور کیا گیا اسرائیلی قانون نافذ ہو جاتا ہے تو اس کے نتائج "تباہ کن” ہوں گے۔انہوں نے کہا، "غزہ میں بیس لاکھ لوگ ہیں جو خوراک کی امداد اور بنیادی صحت کی دیکھ بھال سمیت بقا کے لیے UNRWA پر انحصار کرتے ہیں۔”بہت سے فلسطینیوں کے لیے، انروا امداد ان کی واحد لائف لائن ہے، اور یہ ایک نازک لائف لائن ہے۔
شمالی غزہ میں قحط کی وارننگ
گزشتہ ہفتے، عالمی غذائی تحفظ کے ماہرین کی ایک کمیٹی نے خبردار کیا تھا کہ شمالی غزہ میں قحط کا قوی امکان ہے، جہاں اسرائیل نے گزشتہ ماہ ایک فوجی کارروائی دوبارہ شروع کی ہے۔کئی ہفتوں سے خوراک سے محروم ہزاروں فلسطینی غزہ سٹی پہنچے ہیں جہاں انہیں حالات قدرے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔
اسرائیل نے قحط کی وارننگ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ "جزوی، جانبدارانہ اعداد و شمار” پر مبنی ہے۔فلسطینیوں کے شہر ی امور سے متعلق اسرائیل کی فوجی ایجنسی کوگٹ، (COGAT) نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ غزہ میں "انسانی ہمدردی کی کوششوں کے نفاذ میں سہولت کاری” جاری رکھے ہوئے ہے۔
امداد اپنی کم ترین سطح پر
لیکن اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ میں داخل ہونے والی امداد کی مقدار ایک سال میں اپنی کم ترین سطح پر آ گئی ہے اور اقوام متحدہ نے اسرائیل پر خاص طور پر شمال کو امداد پہنچانے کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے۔حمدان نے کہا، "گزشتہ ماہ اسرائیلی حکام نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر روزانہ اوسطاً 30 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں جانے کی اجازت دی تھی ۔’’ حمدان نے مزید کہا کہ یہ اعداد و شمار ان رسدوں کا چھ فیصد ہیں جنہیں جنگ کے شروع ہونے سے پہلے غزہ میں لے جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔انہوں نے کہا، "غزہ میں مزید امداد بھیجی جانی چاہیے، اور غزہ میں داخل ہونے والی اس امداد کو منظم کرنے کے لیے انروا کے کام کو آسان بنایا جانا چاہیے۔”
فلسطینی امدادی ایجنسی کیا ہے؟
فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کا امدادی ادارہ جس کے غزہ میں 13 ہزار ملازمین ہیں، اس محصور علاقے کے اسکول، صحت کی دیکھ بھال کے مراکز چلانے کے ساتھ ساتھ امداد کی تقسیم اور دوسری سماجی خدمات بھی انجام دیتا ہے۔اسکولوں کی عمارتوں سمیت وہ تمام عمارتیں جنہیں یو این آر ڈبلیو اے ، اپنی فلاحی سر گرمیوں کے لیے استعمال کرتا تھا، اس کے بعد ان ہزاروں افراد کے گھر ہیں جو اسرائیل کے فضائی حملوں سے غزہ کی پوری پٹی کی تباہی کے بعد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔سال بھر سے جاری جنگ کے دوران UNRWA کی پناہ گاہوں پر اکثر بمباری کی جاتی رہی ہے، اور ادارے کے عملے کے کم از کم 220 ا ارکان ہلاک ہو چکے ہیں۔
امدادی نظام کی ‘ریڑھ کی ہڈی’
بہت سے دوسرے امدادی ادارے غزہ میں اپنی امداد کی ترسیل میں انروا کی مدد پر انحصار کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایجنسی غزہ میں انسانی ہمدردی کی کارروائیوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
آکسفام کا ردعمل
غربت، عدم مساوات اور نا انصافی کے خلاف نبرد آزما گلوبل ادارے آکسفام جی بی کے انسانی ہمدردی کے امور کے سر براہ میگنس کورفکسن نے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کو دیے گئے ایک فون انٹرویو میں کہا،”ہمارے نقطہ نظر سے، اور بہت سے دوسرے انسان دوست اداروں کے نقطہ نظر سے ، مجھے یقین ہے، کہ ( انروا کی جگہ لینا ) ایک ناممکن کام ہے۔انہوں نے کہا، "ترجیح اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ برقرار رہیں کیونکہ وہ ہمارے لیے ضروری ہیں۔انہوں نے کہا کہ انروا دوسرے اداروں کو اپنے اسٹاف کی نقل و حرکت اور پانی صاف کرنے والے پلانٹس کے لیے درکار ایندھن کی فراہمی میں مدد کر کے، لاجسٹکس میں مدد کرتا ہے۔کورفکسن نے انروا کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ” ان کے بغیر، ہمیں گوداموں تک رسائی، ایندھن تک رسائی، ٹرکوں تک رسائی، گھومنے پھرنے کے قابل ہونے، رابطہ کاری کرنے کے قابل ہونے کے لیے جدو جہد کرنا پڑے گی ”
ٹراما کے شکار بچوں کے لیے انروا کی خدمات
انروا کے اسکولوں میں ٹراما سے دوچار ان بچوں کو بھی اہم ریلیف فراہم کیا جاتا ہے جو ہر چیز کھو چکے ہیں۔بارہ سالہ لمار یونس جو انروا کے ایک اسکول میں، جو اب ایک شیلٹر میں تبدیل ہو چکا ہے، کچھ ایسی چیزوں سے محظوظ ہو سکتی ہیں جو انہیں جنگ سے قبل حاصل تھیں۔ وہ یہاں سہیلیوں سے مل سکتی ہیں، کلاسز اٹینڈ کر سکتی ہیں، آرٹس اور کرافٹس کر سکتی ہیں اور موسیقی کے سیشن لے سکتی ہیں۔ دوسری سرگرمیاں دردناک طور پر نئی مگر ضروری ہیں، جیسے موجودہ حالات سے نمٹنے کے لیے مینٹل ہیلتھ سپورٹ سیشنز اٹینڈ کر سکتی ہیں۔لمار کو بھی اندازہ ہے کہ اب ان چیزوں کی سپلائی کم ہو گئی ہے اور اب وہ اپنی کاپی بک کو اپنی ایک دوست کے ساتھ شئیر کرتی ہیں۔انہوں نے بتایا ’’ اس سے پہلے وہ ہمیں کتابیں اور پن دیتے تھے لیکن اب وہ دستیاب نہیں ہیں ۔
غزہ میں جنگ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی، جب حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 253 کویرغمال بنالیا گیااسرائیل کی جوابی فوجی مہم میں غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق غزہ کا بیشتر حصہ زمیں بوس اور تقریباً 43,500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔۔ غزہ کی سول ایمرجنسی سروس کے مطابق، 10,000 لوگوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔لڑائی اور تباہی کی وجہ سے پٹی کے 23 لاکھ افراد میں سے زیادہ تر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔