پاکستان میں عسکریت پسندی میں ’اضافے‘ پر ایک نظر

1316132_4180461_13_akhbar.jpg

پاکستان میں اس سال ستمبر میں ریکارڈ کیے گئے 45 حملوں کے مقابلے میں اکتوبر کے دوران 48 پرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں معمولی اضافے کے ساتھ اموات 100 تک پہنچ گئیں۔ جان دینے والوں میں 52 سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں، جن کی تعداد گذشتہ مہینے میں 54 تھی۔ یہ حملے زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے۔خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں مغرب ہونے کے بعد عسکریت پسندوں کا غلبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ٹی ٹی پی اور اس کے ہم خیال گروہ مرکزی شاہراہوں پر گشت کرتے، چیک پوسٹیں لگاتے، گاڑیوں سے ٹول ٹیکس وصول کرتے اور بعض صورتوں میں اپنی عدالتوں کے ذریعے مقامی لوگوں کے درمیان تنازعات میں ثالثی کا کردار بھی ادا کرتے نظر آتے ہیں۔اسی طرح بلوچستان کے جنوبی اضلاع بھی علیحدگی پسندی کی پانچویں لہر کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جہاں تعلیم یافتہ، متوسط ​​طبقہ کے نوجوان یہ تحریک چلا رہے ہے۔

کلیدی رجحانات

آٹھ اکتوبر کو بلوچ لبریشن آرمی کے خودکش سکواڈ مجید بریگیڈ نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب چینی انجینیئرز کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں دو چینی انجینیئرز مارے گئے، جس کے ساتھ تقریباً ایک دہائی قبل چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے شروع ہونے کے بعد سے پاکستان میں جان سے جانے والے چینی باشندوں کی تعداد 21 ہو گئی۔بہرحال بی ایل اے نے اکتوبر کے مہینے میں 800 کلو گرام کے قریب دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرتے ہوئے چینی انجنئیرز کے ایک قافلے کو ایک ہائی سکیورٹی زون میں نشانہ بنایا۔

یہ حملہ چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ کی آمد اور اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی 23 ویں سالانہ کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ سے پہلے ہوا۔ اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس شیڈول کے مطابق منعقد ہوا اور مسٹر لی کی چیانگ نے اپنا دورہ ملتوی نہیں کیا لیکن چین اور پاکستان کے درمیان کچھ تناؤ عوامی سطح پر دیکھنے میں آیا۔مثال کے طور پر پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ میں ایک سیمینار ’چائنا ایٹ 75‘ کے دوران پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے تبصرے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’سیکیورٹی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور محفوظ اور صحت مند ماحول کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ ’صرف چھ ماہ میں دو بار حملہ ہونا ہمارے لیے ناقابل قبول ہے اور ان حملوں سے جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ پاکستان کو مجرموں کو سخت سزا دینا چاہیے اور تمام چین مخالف دہشت گرد گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہیے۔

شمالی وزیرستان میں جولائی اور اگست میں عسکریت پسندوں کی جانب سے فوجی کیمپوں اور گاڑیوں کو دستیاب کواڈ کاپٹروں سے نشانہ بنانے کا ایک رجحان دیکھا گیا۔ اگرچہ کسی بھی گروپ نے حملوں کے لیے مہلک ڈرون استعمال کرنے کا اعتراف نہیں کیا، لیکن سکیورٹی فورسز نے ان حملوں کا ذمہ دار حافظ گل بہادر گروپ کو قرار دیا ہے۔جولائی اور اگست کے درمیان چھ ڈرون حملے دیکھے گئے جن کے ساتھ 100 سے 400 گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔ اس طرح کے حملے اپنے ابتدائی مرحلے میں ہیں اور صرف چھوٹے پے لوڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ان کا استعمال تین وجوہات سے خطرناک ہے۔ سب سے پہلے ایک اہم تکنیکی اور مزید تجربات کے ساتھ عسکریت پسند ڈرون نیٹ حملوں کی مہلکیت اور درستگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔دوسرا یہ تکنیکی مہارت انفرادی بنیاد پرستوں کو ان گروہوں میں شامل ہونے اور ان کے ابتدائی ڈرون پروگراموں کو تیز کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے، جبکہ تیسرا ڈرون عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کو پاکستان کے بڑے شہروں میں حملہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ڈرونز کی محدود افادیت ہے۔ تاہم شہری ماحول میں ڈرون حملے جان لیوا اور مؤثر ثابت ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

25 اکتوبر کو ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر گھات لگا کر حملہ کر کے فرنٹیئر کور کے 10 اہلکاروں کو مار دیا۔ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ٹی ٹی پی نے کہا کہ یہ حملہ 23/24 اکتوبر کی درمیانی رات کو ضلع باجوڑ میں فوج کے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے خلاف انتقامی حملہ تھا، جس میں گروپ کے نو عسکریت پسندوں سمیت ایک کمانڈر سید محمد عرف قریشی استاد کو مارا گیا تھا۔اکتوبر میں پنجاب اور سندھ میں دو، دو حملوں کے واقعات رونما ہوئے جو یکساں طور پر تشویشناک ہے۔ خاص طور پر ضلع میانوالی میں جہاں ٹی ٹی پی نے نومبر 2023 میں ایک ایئربیس پر حملہ کیا تھا۔پاکستان کی نئی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی عزم استحکام نے آئی بی اوز کو تیز کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں کچھ اہم اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاہم صرف طاقت کے استعمال سے ٹی ٹی پی کا نیٹ ورک کمزور نہیں ہو گا۔
مزید یہ کہ گروپ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں گورننس کے خلا کو زبردستی پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 25ویں آئینی ترمیم کے باوجود جس نے سابقہ ​​وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کو سیاسی اور قانونی دھارے میں شامل کیا، اس علاقے میں فی کس اخراجات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔یہ مالیاتی کمی، ایک طرف، این ایم ڈیز کی پسماندگی اور دوسری طرف زمینی حقیقت اور سیاسی توقعات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر براہ راست اثر ڈال رہی ہے۔ٹی ٹی پی اور دیگر ہم خیال عسکریت پسند گروپ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ریاست اور معاشرے کے اس تضاد کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے خیبرپختونخوا میں تنازعات کے مسائل مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ جب تک حکومت کے سکیورٹی اقدامات ان نیٹ ورکس کو کمزور کرنے کا مناسب طریقہ نہیں اپناتے عسکریت پسند ان چیزوں کا فائدہ اتھاتے رہیں گے۔

بلوچستان میں جاری تنازعہ میں سکیورٹی ادارے اور بلوچ مسلح تنظیمیں دونوں ایک دوسرے پر فوجی حل مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ عسکریت پسند بلوچستان کے پھیلی ہوئی آبادی اور پہاڑوں تک محدود گوریلا جنگ کے بارے میں اپنے تجربہ کے باعث کے پاکستانی ریاست کے لیے سکیورٹی کی مد میں اخراجات بڑھانے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔چینی وزیراعظم لی کی چیانگ کا اسلام آباد سے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا ورچوئل افتتاح بلوچستان میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو واضح کرتا ہے۔ ایک بار جب باغی میدان جنگ ایک مقام تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا مقصد اختلافات کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے مذاکرات کرنا ہوتا ہے۔تاہم نہ تو یہاں پر بلوچ مسلح تنظیمیں اور نہ ہی ریاست مخلصانہ بات چیت میں دلچسپی دکھا رہی ہے، جس سے تعطل کا طول تشدد کی مزید شدید شکلوں کی طرف دکھیل دے گا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے