پارا چنار میں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام” کیا ہمارا اتحاد فقط میڈیا تک قائم ہے؟

2287770.jpg

تحریر : حافظ میر ابراھیم (ہندوستان)

دو رنگی خوب نئیں یک رنگ ہو جا

سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا

پڑوسی ملک پاکستان میں خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے سرحدی علاقے پارا چنار میں سابقہ کئی دنوں سے قتل عام ہورہا ہے۔حیرانگی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں کی حکومت خواب خرگوش میں سوئی ہوئی ہے ۔یہ بات واضح ہے کہ اس قتل ناحق پر ارباب اقتدار کی خاموشی ان کی نااہلی اور عصبیت کا ثبوت دے رہی ہے۔ملت اسلامیہ کو ہمیشہ مذہبی دہشتگردوں کے ذریعے ہی رسوا ہونا پڑا ۔آج بھی مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کی آڑ میں ایک مخصوص تکفیری طبقہ شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے۔اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

ذرائع ابلاغ کے کچھ نمائندوں نے اسے پاکستان کے شمال مغربی شیعہ آبادی کے علاقے پارا چنار پر تکفیریوں کے حملے کے بعد شروع ہونے والی لڑائی میں گزشتہ چھے دن میں کم سے کم 40 افراد مارے گئے اور 200 زخمی ہوگئے۔سوشل میڈیا کی خبروں پر نظر ڈالی جائے تو مقتولین کی تعداد 100 پار کر گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پارا چنار کا باہر سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے اور ٹیلیفون لائن نیز انٹرنیٹ کنیکشن بھی کٹ گیا ہے۔

حیرانگی ہوتی ہے اتحاد بین المسلمین کا درس دینے والوں پر ۔کسی کی زبان سے مذمت کے دو بول بھی نہیں نکلے۔درحقیقت ہمارے ذہنوں کو تکفیری و خارجی سوچ سے آلودہ کیا گیا ہے۔مذہبی دہشتگردوں کی طرف سے دئے جانے والے نعروں جیسے ( کافر کافر شیعہ کافر) نے دینی حلقوں کو اس قدر داغدار کیا ہے کہ ہم ان سے ہمدردی کرنے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں۔جو افراد اسے قبائلی جنگ سمجھ رہے ہیں وہ حالات و واقعات سے بے خبر ہیں ۔شیعہ سنی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوششیں ہورہی ہیں اور ہم فرقہ پرستی کی لعنت میں لطف اندوز ہورہے ہیں۔

فرمان ربانی ہے کہ ،”مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْـرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِى الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَـمِيْعًاۖ وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَـمِيْعًا”۔ترجمہ ،”جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بٍغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی”۔(سورۃ المائدۃ) بحیثیت ایک مسلمان ہمیں غیروں کا تحفظ کرنا ہے لیکن بدنصیبی ہے کہ ہم کلمہ گو ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔کیونکہ بعض فرقہ پرستوں کی دکانیں انہیں باطل نعروں سے چل رہی ہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنین کے درمیان جو رشتہ قائم کیا تھا ،تکفیری اس فکر کو مسخ کررہے ہیں۔

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ،”مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم، مثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى”۔ترجمہ ،”مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت، ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات و تعاون کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار کے ذریعے سے (سب اعضاء کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر) اس کا ساتھ دیتا ہے۔”(صحیح مسلم)

مومنین جہاں بھی رہتے ہوں ،انکی تکلیف میں درد محسوس کرنا ،انکی خوشی میں خوش ہونا عین ایمان ہے۔علمی حلقوں میں موجود اختلافات کو خونریزی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔اگر جماعتوں کے ذمہ دار اتحادی مجالس میں موجود ہوتے ہیں تو انکے متبعین کو چاہئے کہ وہ بھی بردباری سے کام لیں وگرنہ قول و فعل کا تضاد منافقت کو واضح کرتا ہے۔

ملت اسلامیہ کو باشعور رہنا ہوگا کیونکہ تکفیری طبقہ نے بہت سے پرسکون گھروں کو آگ لگادی ہے۔وہ زمانہ چلاگیا جب لاعلم عوام کے دل و دماغ میں نفرتوں کو پروان چڑایا گیا تھا ۔اس علمی دور میں وسعت ظرف ،وسعت علم اور وسعت نظر کی ضرورت ہے۔ راقم اس بدامنی کی مذمت کرتا ہے اور دعا ہے کہ رب اتحاد بین المسلمین کو قائم و دائم رکھے۔۔۔۔آمین

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے