مقبوضہ جموں کشمیر:نومنتخب وزیرا علیٰ کی ریاستی حیثیت کی بحالی کی کوششیں

83815ad0-883d-11ef-ad89-61d383fe5b0c.jpg-1000x600.jpg

بھارت کے زیر انتظٓم جموں کشمیر میں نومنتخب وزیر اعلی عمر عبداللہ کی ریاست کی خصوصی حیثیت کی بحالی کی کوششیں شروع کر دی ہے۔اس حوالے سے 6نومبر 2024 کو، جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی نے آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے ایک قرارداد منظور کی، قرارداد نیشنل کانفرنس کے رہنما اور نائب چیف منسٹر سرندر سنگھ چوہدری نے پیش کی۔جموں کشمیر اسمبلی میں پیش کی گئی قرار داد میں میں بھارتی حکومت سے مذاکرات کی اپیل کی گئی تاکہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتیں بحال کی جائیں۔

اس ہونے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون ساز اسمبلی جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتوں کی اہمیت کی توثیق کرتی ہے، جس نے کشمیر کے لوگوں کی شناخت، ثقافت اور حقوق کا تحفظ کیا اور اس کی یکطرفہ برطرفی پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔قرار داد میں کہا گیا جموں وکشمیر اسمبلی بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحالی، آئینی ضمانت اور دفعات کی بحالی کے لیے آئینی طریقہ کار پر کام کرنے کے لیے بات چیت شروع کرے

قرارداد میں زور دیا گیا کہ بحالی کی کوششوں کو قومی اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے جموں و کشمیر کے عوام کی جائز امنگوں کا احترام کرنا چاہیے۔قرار داد کے موقع پر بی جے پی کے اراکین اسمبلی نے احتجاج کیا کہ یہ قرارداد دن کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے اور نعرے بازی کرتے رہے،بی جے پی کی مخالفت کے باوجود اسپیکر عبد الرحیم رادھر نے قرارداد کو ووٹنگ کے لیے پیش کیا اور یہ قرارداد منظور ہو گئی جس کے بعد اسپیکر نے مختصر وقفہ کیا۔

قرارداد کی منظوری کے ساتھ، حکمراں این سی نے کہا کہ اس نے اپنے منشور کے وعدوں میں سے ایک کو پورا کیا ہے جبکہ چیف منسٹر عمر عبداللہ نے کہا کہ "اسمبلی نے اپنا کام کیا ہے۔واضح رہے کہ مودی حکومت نے اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا اور سابقہ ​​ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا۔آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے پہلے انتخابات ہوئے جس میں نشینل کانفرنس جماعت 42 نشستیں جیت کر سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے، جس کے بعد نو منتخب وزیر اعلی نے جموں کشمیر کی خصوسی حثیت کی بحالی کے لیے اقدامات تیز کر دیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔