ٹرمپ کی صدارت پاکستان کیلئے کیا معنی رکھتی ہے؟
پاکستان میں کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ 5 نومبر کو امریکی صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں تو یہ جیت عمران خان اور پاک امریکا تعلقات کے لیے سازگار نتائج کا موجب بن سکتی ہے، تاہم یہ توقعات گہرے سراب کا نتیجہ ہیں اور امریکی خارجہ پالیسی کے حقائق سے کوسوں دور ہیں۔رپورٹ کے مطابق اگرچہ امریکی کانگریس کے بعض ارکان عمران خان کی قید پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں، یہ اشارے معیاری امریکی سیاسی طرز عمل کے عکاس ہیں جہاں منتخب حکام اپنے حلقہ انتخاب کے اہم مسائل پر بات کرتے ہیں تاکہ اپنے ووٹ کو محفوظ کرسکیں۔دی ایسوسی ایشن آف فزیشن آف پاکستانی ڈیسنٹ آف نارتھ امریکا (اے اے پی این اے)، ایک بااثر تنظیم ہے، جو18 ہزار سے زائد پاکستانی امریکی ڈاکٹرز کی نمائندہ ہے اور درحقیقت شعبہ صحت کے ماہرین کا ایک نیٹ ورک رکتھی ہے، ایک اہم حمایتی گروپ کے طور پر سامنے آئی ہے۔
پاکستان میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد اے پی پی این اے نے امریکا میں حمایت کو متحرک کیا ہے،پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے قانون سازوں تک رسائی حاصل کی ہے، اگرچہ عمران خان مقامی سطح پر ایک منقسم شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، خودمختاری اور انسداد بدعنوانی کے حوالے ان کے موقف نے اے پی پی این اے سمیت پاکستانی امریکیوں کی قابل ذکر حمایت حاصل کی ہے۔پاکستان جیسے ممالک میں ٹرمپ کی ایک صدارت کا مطلب ممکنہ طور پر لین دین پر مبنی تعلقات کی طرف منتقل ہونا ہوگا جو اقتصادی یا جمہوری ترقی کے بجائے مخصوص سیکیورٹی خدشات پر زور دیتا ہے، آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے کچھ کلیدی پہلوؤں کیا ہوں گے اور وہ پاکستان پرکیسے اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کی غیرملکی امداد میں کمی
خارجہ پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ کا نقطہ نظر بین الاقوامی اتحاد اور ذمے داریوں پر اخراجات کے بجائے امریکی مفادات کو ترجیح دیتا ہے، اسکا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی غیرملکی امداد میں نمایاں کمی آسکتی ہے جس میں فنڈز کی فراہمی طویل مدتی ترقیاتی منصوبوں کے بجائے مخصوص حفاظتی اقدامات تک محدود ہوگی۔جبکہ موجودہ انتظامیہ نے پاکستان کے سول اداروں کی حمایت میں سرمایہ کاری کی ہے، ٹرمپ انتظامیہ ان اقدامات کو غیرضروری تصور کرسکتی ہے اور اس کے بجائے امریکی مفادات کے حامل انسداد دہشت گردی آپریشنز اور سیکیورٹی پارٹنر شپ پر توجہ دے سکتی ہے۔
ٹرمپ کی پہلی مدت میں چین امریکا میں تعلقات نمایاں کمی دیکھنے میں آئی جس میں تجارتی جنگ اور چینی سرمایہ کاری و محققین پر پابندیاں شامل ہیں، ٹرمپ مستقل طور پر چین کو واشنگٹن کے اصل حریف کے طور پر دیکھتے ہیں اور دوسری مدت کا مطلب ہوگا کہ وہ چین عالمی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوششوں کو تیز کریں گے، اس اقدام کے نتیجے میں پاکستان پر اضافی دباؤ پڑے گا جس کی چین کے ساتھ تزویراتی تعلقات ہیں، خاص کر چین پاکستان اکنامک کوریڈور ( سی پیک) کو امریکی چھان بین کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، ٹرمپ پاکستان پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ انفرااسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور دفاع جیسے حساس شعبوں میں چین سے تعاون محدود کیا جائے گوکہ پاکستان ان حساس تعلقات پر سمجھوتا کرنے پر مزاحمت کرے گا۔
ٹرمپ کی صدارت پاکستان کو ایک ایسی مشکل صورتحال سے دوچار کرسکتی ہے جہاں اسلام آباد کو چین سے تعلقات پر پڑنے والے دباؤ کے مقابلے میں امریکا کے ساتھ اپنے طویل مدتی تعلقات میں توازن پیدا کرنا ہوگا، ایسے میں جب امریکی تعاون مزید مشروط اور لین دین پر مبنی ہوگا، اگر امریکی امداد اور سرمایہ کاری میں کمی آتی ہے تو پاکستان کو اقتصادی اور تزویراتی تعاون کے لیے چین کی طرف مزید جھکاؤ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
بھارت امریکا تعلقات میں بہتری
بحیثیت صدر، ٹرمپ نے چین کے تذویراتی مدمقابل کے طور پر ہمیشہ بھارت کو واضح ترجیح دی ہے اور وائٹ ہاؤس میں ان کی واپسی سے یہ پوزیشن مزید گہری ہوسکتی ہے، اس کے پاکستان پر بھی اثرات ہوسکتے ہیں خاص طور پر اگر ٹرمپ انتظامیہ کشمیر اور افغانستان میں بھارت کے کردار پر پاکستانی تحفظات پر کم حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہے۔امریکا جنوبی ایشیا کی سلامتی کی حرکیات کے بجائے اپنی وسیع تر ہند بحرالکاہل حکمت عملی پر توجہ دے سکتا ہے، اگر پاکستان کو بھارت نواز تعصب نظر آتا ہے جو اس کے سلامتی کے مفادات کو پس پشت ڈالتا ہے تو سفارتی دراڑ پڑ سکتی ہے۔
جوہر سلامتی اور انسداد دہشت گردی
ٹرمپ ماضی میں جنوبی ایشیا میں جوہری جانچ پڑتال کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں اور ان کی انتظامیہ پاکستان کے لیے امریکی امداد اور تعاون پر مزید سخت شرائط عائد کرسکتی ہے، شفافیت اور تعاون کے نئے مطالبات کے ساتھ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی جانچ پڑتال میں اضافہ ان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہوسکتا ہے۔مزید برآں، انسداد دہشت گردی پر ٹرمپ کی تاریخی دلچسپی، جو افغانستان میں طالبان کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر سے واضح ہے، پاکستان پر مقامی دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر جو خطے میں امریکی مفادات پر اثرانداز ہوتے ہیں، کیخلاف سخت موقف اختیار کرنے پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔
ٹرمپ کی انتظامیہ میں پاکستان کے لیے توقعات بہت زیادہ ہوں گی، کیوں کہ متوازن خارجہ تعلقات کے لیے مضبوط امریکی سفارتی اور اقتصادی تعلقات برقراررکھنا ضروری ہے، اگر پاکستان اورامریکا کے تعلقات انتخابی طور پر منسلک ہوتے ہیں تو اسلام آباد کو اپنے وسیع تر علاقائی خدشات پر واشنگٹن کے سلامتی کے مفادات کو ترجیح دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔