قاضی فائز عیسیٰ کا ایک سالہ دور "اور ان سے جڑے اہم فیصلے”

315076-1119156823.jpg

پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کے 29 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایک سالہ دور قانونی ماہرین کے مطابق ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ویسے تو جسٹس فائز عیسیٰ بلوچستان سے ہی خبروں میں رہے لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں ان کے خلاف بدعنوانی کا ریفرنس قومی بحث بن گیا، تاہم چیف جسٹس تعینات ہونے کے بعد انہیں سپریم کورٹ کے اندر سے بھی ساتھی ججوں کی مخالفت دیکھنی پڑی۔

آئیں جائزہ لیں کہ بطور چیف جسٹس ان کا ایک سال کیسا رہا؟

متنازع فیصلہ جو تبدیل کرنا پڑا

رواں برس فروری میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مبارک زیب مقدمے میں ایسا فیصلہ دیا جس کی وجہ سے انہیں بڑے پیمانے پر منظم مہم کے ساتھ ساتھ جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ توہین مذہب کے مقدمے میں گرفتار ایک ملزم کی درخواستِ ضمانت پر دیے گئے فیصلے نے اچانک سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک منظم مہم کو جنم دیا، جس میں ملک کی مذہبی جماعتیں بھی شامل ہوگئیں۔اس مہم کے دوران چیف جسٹس کے فیصلے کو آئین اور دین سے متصادم قرار دیا گیا اور توہینِ مذہب جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے، جس کے بعد چیف جسٹس نے علما سے اس فیصلے پر رائے طلب کر کے فیصلے میں تصحیح کر دی۔

مقدمہ کیا تھا؟

توہین عدالت کے ملزم پر چھ دسمبر 2022 کو ضلع چنیوٹ میں درج ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ملزم ممنوعہ کتاب ’تفسیرِ صغیر‘ تقسیم کر رہا تھا۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ ’چونکہ سنہ 2019 میں ممنوعہ کتاب کی تقسیم جرم نہیں تھی اس لیے درخواست گزار پر یہ فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔ آئین نے قرار دیا ہے کہ کسی شخص پر ایسے کام کے لیے فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی، جو اس وقت جرم نہیں تھا، جب اس کا ارتکاب کیا گیا۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’دین کے معاملے میں پاکستانی آئین میں اس کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور بیان کرنے کا حق ہے۔جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا ایک بیان بھی اس فیصلے پر آیا جس میں کہا گیا کہ ’چیف جسٹس نے اپنے فیصلے کے ذریعے احمدیوں کو تبلیغ کی اجازت دی ہے اور یہ فیصلہ آئین و قانون کے منافی ہے۔

شدید تنقید کے بعد عدالت کو وضاحت جاری کرنی پڑی کہ ’ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ فیصلے میں مذہب کے خلاف جرائم کے بارے میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات کو ختم کرنے کو کہا گیا ہے، جو حقائق کے بالکل منافی ہے۔نظرثانی درخواستوں میں علما سے تجاویز لینے کے بعد سپریم کورٹ نے اگست میں ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے فیصلے کے پیراگراف سات اور 42 حذف کرنے کا حکم دے دیا۔

ساتھی ججوں سے اختلاف؟

آٹھ فروری کے عام انتخابات سے قبل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے جماعت کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا تھا۔عام تاثر ہے کہ اس فیصلے کے بعد ساتھی ججوں سے اختلاف کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جو وقت کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی نوعیت جیسے کہ مخصوص نشستوں کے مقدمے کی وجہ سے بڑھتا چلا گیا۔چیف جسٹس کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ جو پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نکتہ نظر سے اتفاق کرتے تھے لیکن بعد میں مخالف بلاک میں چلے گئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف خطوط لکھے۔ جسٹس منصور اور جسٹس منیب اختر نے کھل کر اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور جواباً جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی بذریعہ رجسٹرار خط تحریر کیے۔

ہمارے نمائندہ نے اس ضمن میں سینیئر وکلا اور عدالتی امور کی کوریج کرنے والے صحافیوں سے رابطہ کیا اور ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔صحافی سہیل رشید نے کہا کہ ’ایک سال کے عرصے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مختلف اور ایک حد تک متضاد شخصیت نظر آئے۔حلف لیا تو جمہوریت، سپریم کورٹ میں شفافیت کی بات کی، فل کورٹ اجلاس طلب کیا لیکن پھر ساتھی ججوں کو کھلی عدالت میں ٹوکتے دکھائی دیئے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ آخری ایام میں ساتھی ججوں کی جانب سے فل کورٹ طلب کرنے کے مطالبے کو ٹھکرا دیا۔

سہیل رشید نے یاد دلایا کہ پہلے 13 جنوری کو عین انتخابات سے قبل 56 ہزار زیر التوا مقدمات چھوڑ کر تحریک انصاف کا انٹرا پارٹی الیکشن مقدمہ سماعت کے لیے لگانا، پھر چھٹی کے روز ہفتے کے دن رات 12 بجے تک بیٹھ کر فیصلہ سنانے نے ان کی ذات کو بھی متنازع بنا دیا اور عام انتخابات کو بھی۔آدھا سال وہ اسی تنازعے میں الجھے رہے، باقی آدھا سال اسی فیصلے کے نتیجے میں مخصوص نشستوں کا بحران ان کا پیچھا کرتا رہا اور وہ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے والے ججوں سے الجھتے رہے۔جب وہ چیف جسٹس بنے تو توقع تھی کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی روش ختم کروائیں گے لیکن صورت حال یہ ہے کہ جب رخصت ہو رہے ہیں تو خود نوٹ لکھ کر مخصوص نشستوں کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ فیصلے پر عمل نہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔سہیل رشید نے کہا کہ ’چیف جسٹس فائز عیسیٰ دور کے اختتام پر عدلیہ کی آزادی پر چھائے سیاہ بادلوں نے ان کے پرویز مشرف اور ذوالفقار علی بھٹو مقدمے میں اچھے فیصلوں کو بھی دھندلا دیا ہے۔‘

سینیئر صحافی حسنات ملک نے نمائندہ کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’قاضی فائز عیسیٰ بہت زیادہ متنازع چیف جسٹس رہے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے حوالے سے انہوں نے جانبدارانہ رویہ رکھا اور ویسے ہی فیصلے دیے۔ ’اگر ایسا تاثر تھا تو انہیں اپنے فیصلوں سے اس تاثر کو زائل کرنا چاہیے تھا۔ بلے کے نشان کے فیصلے سے معاملات خراب ہوئے تھے۔ ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے مداخلت کا خط لکھا تو انہوں نے اس پر کوئی خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا۔ تاثر یہ تھا کہ انہوں نے حکومت کو فیور دینے والے فیصلے کیے جس میں 63 اے نظرثانی کیس کا فیصلہ بھی شامل ہے۔سینیئر قانون دان شاہ خاور نے کہا کہ ’قاضی فائز عیسیٰ کا ایک سال ہیجان خیز رہا اور یہ سلسلہ تب سے ہی شروع ہو گیا تھا جب ان کے خلاف ریفرنس فائل ہوا اور کارروائی ہوئی۔ وہ تب سے ہی اپنی اہلیہ کے ہمراہ عتاب کا نشانہ بنے تھے۔چیف جسٹس بننے کے بعد ان کے خلاف سیاسی جماعت کی جانب سے منظم مہم بھی چلائی گئی اور اسی وجہ سے ان کے اور ساتھی ججوں کے درمیان خلیج بڑھتی گئی جبکہ دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ بھی سیاسی پارٹی کی سیاست کا غیر محسوس طریقے سے حصہ بن گئے۔مخصوص نشستوں والے مقدمے کے بعد قاضی فائز عیسیٰ اور منصور علی شاہ کے درمیان نظریاتی اختلاف بڑھ گیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بننے کے بعد تمام ساتھی ججوں کو ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔لیکن ان کے اچھے فیصلے بھی رہے۔ انہوں نے بھٹو ریفرنس جیسا تاریخی فیصلہ دیا جس میں عدلیہ کی غلطی تسلیم کی گئی۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو بھی تسلیم کیا۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما سعد رفیق نے ایکس پر کہا کہ ’قاضی فائز عیسیٰ کی آزادانہ سوچ کے باعث جنرل باجوہ، عمران خان اور ثاقب نثار مائنڈ سیٹ نے انہیں مسلسل نفرت اور انتقام کا نشانہ بنایا۔ بدقسمتی سے چیف جسٹس بننے کے بعد وہ اس انتقامی دور کو بھلا نہ پائے اور ان کے بعض فیصلوں پر ان کا غصہ غالب رہا۔ وہ عدلیہ کی آزادی کے علم بردار ساتھی ججوں کو متحد نہ رکھ سکے۔ اگر یہ جج صاحبان غیر جانبدار اور متحد رہتے تو ملک کے حالات مختلف ہوتے۔

اہم فیصلے

عام انتخابات کا انعقاد

چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے الیکشن کمیشن کو احکامات جاری کیے کہ وہ ہر صورت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر 12 جبکہ صدر مملکت عارف علوی سے مشاورت کے بعد آٹھ فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی اکثر جمہوریت کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیتے ہیں کہ ’ہم نے تو 12 دنوں میں انتخابات کروائے تھے۔ عمران خان کی نیب ترامیم مقدمے میں آن لائن پیشی کے موقعے پر بھی چیف جسٹس نے ان کے سامنے اس بات کا ذکر کیا۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر

12 اکتوبر 2023 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے فل کورٹ نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے متعارف کروائے گئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو منظور کر لیا۔اس سے قبل سابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک بینچ نے اس ایکٹ پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔ اس ایکٹ میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ اہم چیز یہ تھی کہ ازخود سماعت کا اختیار اور بینچوں کی تشکیل سے متعلق معاملات کو چیف جسٹس کی بجائے تین رکنی کمیٹی کے حوالے کیا گیا۔

فوجی عدالتیں

عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود کی سربراہی میں ایک بینچ تشکیل دیا جس نے 12 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ کے گذشتہ فیصلے کو معطل کرتے ہوئے نو مئی کے سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کی اس شرط پر اجازت دی کہ ان مقدمات کے حتمی فیصلے جاری نہیں کیے جائیں گے۔ اس مقدمے کا اب تک حتمی طور پر فیصلہ نہیں ہو پایا۔

بلے کا انتخابی نشان

آٹھ فروری کے عام انتخابات سے قبل 13 جنوری 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے 13 گھنٹے کی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان بلے سے اس بنا پر محروم کر دیا تھا کہ وہ انٹراپارٹی انتخابات کروانے کا کوئی ثبوت عدالت میں جمع نہ کروا سکی۔طویل سماعت کے دوران پی ٹی آئی کو متعدد مواقع فراہم کیے گئے کہ وہ انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے کوئی ثبوت عدالت میں جمع کروائے لیکن وہ ایسا نہ کر سکی جس کے بعد فیصلہ سنا دیا گیا اور سپریم کورٹ، خاص طور پر چیف جسٹس کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس

نو جولائی 2024 کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے نو رکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر تفصیلی فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم کے مقدمے میں آئینی و قانونی ضابطے پورے نہیں کیے گئے تھے اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا۔

مخصوص نشستیں

12 جولائی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 13 رکنی فل کورٹ نے ایک مختصر آٹھ پانچ کے اکثریتی فیصلے کے ذریعے قرار دیا کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کی جانب سے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس جمع کروائے تھے ان کا تعلق پی ٹی آئی ہی کے ساتھ ہے اور ان 39 اراکین کو آزاد امیدوار تصور نہیں کیا جائے گا جبکہ 41 امیدوار 15 روز کے اندر پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا، جس کی ان کے علاوہ سات دیگر جج صاحبان نے حمایت کی اور چیف جسٹس اقلیتی فیصلے کا حصہ تھے۔ اس فیصلے پر حکومت کی نظر ثانی اپیلیں تاحال زیرالتوا ہیں لیکن وفاقی حکومت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے اس فیصلے کو عملاً غیر موثر کر چکی ہے۔

نیب ترامیم

اس سے قبل چھ ستمبر 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو منظور کر لیا۔ اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے 15 ستمبر 2023 کو یہ ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں جس پر وفاقی حکومت نے بعد میں نظر ثانی اپیلیں دائر کی تھیں۔

آرٹیکل 63 اے

رواں ماہ تین اکتوبر کو آرٹیکل 63 اے نظرثانی درخواستوں کا چوتھی سماعت پر ہی چیف جسٹس نے مختصر فیصلہ سنا دیا۔سپریم کورٹ نے منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔ عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن و دیگر اپیلیں سماعت کے لیے منظور کی جاتی ہیں۔ان کے جانے کے بعد اب نئے چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی کافی مختلف حالات میں اس اہم ترین منصب پر فائم ہوں گے۔ پہلی بار پارلیمانی کمیٹی کے تعینات کردہ چیف جسٹس کو تین سال کے طویل عرصے تک اس عہدے پر رہنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے