پی ٹی آئی کی جارحانہ حکمت عملی رنگ لائے گی؟

843732_32516306.jpg

مارچ 1973 میں عوامی نیشنل پارٹی نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہ منعقد کیا تھا۔ اس جلسے پر حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اے این پی کے درجنوں کارکنان مارے گئے تھے۔ اس واقعے کے ایک ماہ بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اپریل 1973 میں آئین پاکستان منظور کرایا۔ اے این پی کے سربراہ ولی خان اس تلخ سیاسی ماحول اور حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے باوجود نہ صرف اس آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے بلکہ آئین پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔

بھٹو صاحب کی حکومت کیخلاف آئین منظور ہونے کے بعد بھی حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھرپور احتجاج جاری رکھا اور حکومت کو ٹف ٹائم دیا۔ لیکن 1974 میں آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن (او آئی سی) کا پاکستان میں ایک بڑا بین الاقوامی اجتماع ہونا تھا۔ یہ اس دور میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بین الاقوامی اجتماع تھا، جس میں اسلامی ممالک کے سربراہان نے شرکت کرنی تھی۔ حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے اندرونی سیاسی کشمکش اور اختلافات کے باوجود نہ صرف اپنا احتجاج مؤخر کیا بلکہ اس اجتماع کو ویلکم بھی کیا۔اس طرح اپوزیشن جماعتوں کے تعاون کی وجہ سے بھٹو حکومت ایک بڑا بین الاقوامی اجتماع کامیابی سے منعقد کرانے میں کامیاب رہی۔

اس بین الاقوامی اجتماع کے 50 سال بعد کوئی اس طرح کا بڑا ایونٹ پاکستان میں ہونے جارہا ہے۔ 14 تا 16 اکتوبر اسلام آباد میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں 7 ممالک کے وزرائے اعظم، ایک نائب صدر اور ایک ملک کے وزیرخارجہ سمیت اہم رہنما شرکت کرنے کے لیے پاکستان آرہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے اور حکومت اس سمٹ کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور کوشش کررہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے طور پر بھرپور کوشش کرتی آرہی ہے کہ کسی طرح یہ اجلاس منسوخ ہوجائے، کیونکہ حکومت کی یہ کامیابی تحریک انصاف کے بیانیے کو بالکل بھی سوٹ نہیں کرتی۔

ویسے تو احتجاج کرنا پاکستان کے ہر شہری اور سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف نے اس حق کو ہمیشہ اپنی ملکیت سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی بڑا بین الاقوامی ایونٹ ہونے جارہا ہو عمران خان نے ہمیشہ اس میں رخنہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ 2014 میں چین کے صدر شی جن پنگ نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا جس میں سی پیک کا باقاعدہ افتتاح کیا جانا تھا لیکن عمران خان نے اس دورے سے پہلے ہی ڈی چوک پر دھرنا دے دیا اور 126 دنوں تک عین پارلیمنٹ کے دروازے پر دھرنا دیے رکھا۔ نتیجتاً چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوگیا۔

اس معاملے کے 2 سال بعد 2016 میں ملک میں ایک اور بڑا بین الاقوامی اجتماع ہونا تھا جس میں او آئی سی کے رکن ممالک کے سربراہان نے پاکستان میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کرنی تھی، لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے جاری احتجاجی سلسلے کی وجہ سے ان رکن ممالک کی ایمبیسیز نے اپنے اپنے ممالک رپورٹ بھیجی کہ ملک میں سیاسی اور سیکیورٹی کے حالات موافق نہیں ان رپورٹس کی بنیاد پر یہ اجلاس منسوخ کرنا پڑا۔

کسی بڑے ایونٹ سے پہلے پی ٹی آئی کے احتجاج کا سلسلہ وہیں ختم نہیں ہوا اب بھی جاری ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے 2 ہفتے پہلے پی ٹی آئی کی ڈی چوک پر احتجاج کی پہلی کوشش تو جیسے تیسے ناکام ہوئی، اس کے بعد یہ سوچا جارہا تھا کہ اس ناکامی کے بعد اب کچھ عرصہ یہ جماعت سکون کرے گی اور مزید کوئی احتجاج نہیں کرے گی، خاص طور پر اس میگا ایونٹ کے دوران تو بالکل بھی نہیں۔ لیکن پی ٹی آئی نے ان تمام سیاسی پنڈتوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے عین شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس والے دن ایک بار پھر ڈی چوک پر احتجاج کی کال دے دی ہے۔ اس کال کو پاکستان کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملک دشمنی سے تشبیہہ دی ہے۔ لیکن اسکے باوجود بھی پی ٹی آئی کے فیصلہ سازوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

2 ہفتے پہلے دی جانے والی احتجاج کی کال کا جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ حکومت شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس تک آئینی ترمیم کو مؤخر کرے۔ بالآخر آئینی ترمیم مؤخر ہوگئی تو اس کے بعد اب 15 اکتوبر کو احتجاج کی کال دینے کا یہ بہانہ بنایا گیا ہے کہ عمران خان سے ان کے ڈاکٹر اور ان کی بہن کی ملاقات کروائی جائے ورنہ وہ ڈی چوک پر احتجاج کریں گے۔

سوال یہ ہے کیا پی ٹی آئی کی بلیک میلنگ کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا یا حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے اس بار کوئی تادیبی کاروائی کرے گی؟

حکومتی وزرا کی پریس کانفرنسز اور بیانات سے تو یہی لگتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے موقع پر کوئی شرارت کی یا احتجاج کی کوشش کی تو اس مرتبہ ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ اگر حالات اور واقعات اور موقعے کی مناسبت کو دیکھا جائے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی کی اس جارحانہ حکمت عملی کا فائدے سے زیادہ نقصان ہوگا۔ کیونکہ احتجاج اور تخریب کاری میں بہت کم ہی فرق ہوتا ہے اور ایسے نازک موقع پر احتجاج کی آڑ میں کوئی تخریب کاری ہوئی تو اس سے نقصان حکومت کا نہیں بلکہ ملک کا ہوگا کیونکہ اہم ممالک کے سربراہان مملکت کے علاوہ دنیا بھر کا میڈیا اس میگا ایونٹ کی کوریج کرنے کے لیے موجود ہوگا اور پوری دنیا کی نظریں اس ایونٹ پر ہونگی۔ ایسے میں کوئی بھی شرارت پی ٹی آئی کے مستقبل پر مستقل سوالیہ نشان چھوڑ جائے گی۔

 

کالم نگار :- عزیز درانی

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے