صیہونزم اور دہشت گردی، ایک تاریخی جائزہ (حصہ اول)

images-2.jpeg

"صیہونزم” انیسویں صدی کے آخر میں "تھئوڈور ہرٹزل” نامی ایک یہودی مفکر کی جانب سے دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنے اور وہاں پر ان کیلئے ایک خودمختار ریاست قائم کرنے کے ہدف سے معرض وجود میں آیا۔ اس مکتب فکر کے مطابق ہدف وسیلے کو جائز بنا دیتا ہے باین معنا کہ ہر وہ فعل جو ہدف کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جائز ہے چاہے دینی اور عقلی حوالے سے قابل مذمت ہی کیوں نہ ہو۔ ہرٹسل پہلے اس مقصد کی خاطر عثمانی خلافت کے سربراہ سلطان عبدالحمید کے پاس گیا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ عثمانی خلیفہ سے مایوسی کے بعد اس نے برطانیہ کا رخ کیا اور برطانوی حکومت کو یہودی ریاست کے قیام کیلئے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گیا۔

دوسری جنگ عظِم میں خلافت عثمانی کے خاتمے کے بعد ہرٹسل نے فلسطین میں ایک یہودی ایجنسی قائم کی جس کو برطانیہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ برطانیہ نے رسمی طور پر اس ایجنسی کو دنیا کے تمام یہودیوں کی نمائندہ جماعت قرار دیا جس کے نتیجے میں ساری دنیا کے یہودیوں نے اس ایجنسی کی مدد سے فلسطین کا رخ کیا۔ تھوڑی مدت کے بعد اس ایجنسی کی زیر نگرانی یہودیوں کی حفاظت کے بہانے مسلح گروپس بننا شروع ہو گئے۔ یہ گروپس فلسطین میں یہودی مہاجرین کی حفاظت کو اپنا فرض ظاہر کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان گروپس نے فلسطینی مسلمانوں پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔ یہ گروپس نظریاتی حوالے سے ایکدوسرے سے اختلافات رکھتے تھے لیکن سب کا ہدف ایک تھا اور وہ یہودیوں کے مفادات کی حفاظت کرنا تھا۔

صیہونزمانسائیکلوپیڈیا میں صیہونزم کے لفظ کی تعریف اس طرح سے کی گئی ہے: "صیہونزم ایسا لفظ ہے جو 1890 میں ایک ایسی تحریک کیلئے مشہور ہو گیا جس کا ہدف دنیا کے تمام یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنا تھا”۔ 1896 سے یہ لفظ ایک سیاسی تحریک کیلئے استعمال ہونے لگا جسکی بنیاد تھئوڈور ہرٹسل نے رکھی”۔ یہ لفظ "صیہون” نامی ایک پہاڑ سے لیا گیا ہے۔ یہ لفظ یہودیوں کے نزدیک "مقدس سرزمین” یا "سرزمین موعود” کے معنا میں رائج ہو گیا ہے۔ اس لفظ کو پہلی بار ایک جرمن یہودی مصنف بارنتن برینیوم نے انیسویں صدی میں یہودیوں کے درمیان ایک نئی سیاسی سوچ کیلئے استعمال کیا تھا۔ سیاسی صیہونزم ہرٹسل کی جانب سے اسکی تحریروں میں ایک عملی منصوبے کے طور پر استعمال کیا گیا جسکی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ دنیا میں ایک مسئلہ "مسئلہ یہود” کے عنوان سے موجود ہے جسکی اصل وجہ یہودیوں کی دربدری اور اصلی وطن نہ ہونا ہے اور اسکا واحد حل یہ ہے کہ دنیا کے تمام یہودی اپنی اصلی سرزمین یعنی فلسطین کی طرف لوٹ جائیں اور وہاں ایک خالص یہودی ریاست قائم کریں۔ یہ تحریک انیسویں صدی میں اس وقت وجود میں آئی جب دو بڑے سیاسی نظریئے پائے جاتے تھے۔ پہلا نظریہ انسانی بھائی چارے، مساوات، ترقی اور ایسی دنیا قائم کرنے پر مبنی تھا جس میں تمام انسان ایک گھرانے کے طور پر زندگی بسر کر سکیں جبکہ دوسرا نظریہ ایک خاص نسل کی دوسرے انسانوں پر برتری کا نظریہ تھا۔ پہلا نظریہ لیبرالیزم سے لیا گیا تھا جسکے حامی فقیر یہودی تھے جبکہ دوسرا نظریہ ایسے یہودیوں کا تھا جو انسانی مساوات کے قائل نہیں تھے بلکہ یہودی نسل کی برتری کے قائل تھے۔

سیاسی صیہونزم کی تشکیل کے اسبابسیاسی صیہونزم انیسویں صدی میں مختلف وجوہات کی بنا پر معرض وجود میں آیا۔ ان میں سے ایک وجہ یہودی ستیزی کی بحث ہے جو 1880 کی دہائی کے شروع میں "یوگرومز” کی شکل میں روس میں ظاہر ہوئی۔ یوگرومز یہودیوں کے پاس ایک الگ اور خودمختار حکومت بنانے کا اصلی بہانہ سمجھا جاتا ہے۔ پنسکر نے 1882 میں "خودمختاری” کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے اس بات پر زور دیا کہ یہودی ستیزی کی اصلی وجہ یہودیوں کی بزدلی ہے۔ اس نے اس کتاب میں یہودیوں کو منظم ہونے کی ترغیب دلائی۔ اس نے اس بارے میں یوں لکھا: "دنیا یہودیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے کیونکہ دنیا میں ہماری کوئی وطن نہیں ہے اور ہم ہر جگہ اجنبی سمجھے جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا بنیادی حل یہ ہے کہ ساری دنیا کے یہودی فلسطین میں جمع ہو جائیں اور ایک آزاد یہودی ریاست قائم کریں”۔ اس کا نتیجہ یہودی کانگرس کی تشکیل تھا۔ سیاسی صیہونزم کی تشکیل میں ایک اور اہم کردار فلسطین میں عبری زبان کے احیاء کی تنظیم کا تھا۔

یہ تنظیم مختلف وجوہات کی بنا پر 1880 اور 1881 میں روس سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی نقل مکانی کا نتیجہ تھی۔ ان متعصب یہودیوں نے اپنے قومی مفادات کی خاطر فلسطین میں اس زبان کی ترویج شروع کی تاکہ دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے یہودی ایک مشترکہ شناخت پیدا کر سکیں۔ اسی طرح صیہونزم کی تشکیل کی ایک اور اہم وجہ ہرٹسل کی طرف سے "یہودی حکومت” نامی کتاب کا منظر عام پر آنا تھا۔ اس کتاب کی اشاعت نے اس وقت کے یہودیوں میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کر دی۔ ہرٹسل نے جب دیکھا کہ اسکی کتاب کا کس قدر استقبال کیا گیا ہے تو وہ اپنی فکری استعداد کی بنیاد پر صیہونزم کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے پر تیار ہو گیا۔ لہذا اس نے عثمانی خلیفہ عبدالحمید سے رابطہ کیا۔ وہاں سے مثبت جواب نہ ملنے پر برطانوی حکومت سے رابطہ کیا۔ اسکے بعد سے یہودیوں کے نزدیک اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کیلئے برطانیہ ایک اہم گزینہ بن گیا۔ اسی طرح برطانیہ یہودیوں کے اقتصادی اداروں کا مرکز بن گیا۔ یہودیوں کا نیشنل فنڈ، یہودی ٹرسٹ اور دوسری بہت سی یہودی کمپنیاں برطانوی کمپنیوں کے روپ میں سرگرم عمل ہو گئیں۔ برطانیہ نے بھی اپنے استعماری اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے یہودیوں کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی اور انہیں اپنے زیر سایہ قرار دیا۔

سیاسی صیہونزم کا بانی

اگرچہ فلسطین میں یہودیوں کی آمد کا زمینہ مختلف یہودی تنظیموں نے فراہم کیا تھا لیکن سیاسی صیہونزم اور اسرائیلی کا بانی تھئوڈور ہرٹسل کو سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ نظریہ 1896 میں ہرٹسل کی کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد وجود میں آیا۔ اس کتاب میں اس نے صہیونیسم کی ایک نئی تعریف پیش کی۔ اس کتاب کے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:

۱۔ یہودی دنیا میں جہاں بھی ہیں ایک قوم کو تشکیل دیتے ہیں، ۲۔ وہ دنیا میں ہر جگہ آزار و اذیت کا شکار رہے ہیں، ۳۔ وہ جن اقوام میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان میں گھل مل نہیں سکتے۔ ہرٹسل نے 1887 میں "دی وسٹ” کے نام سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا جو صیہونیستی سوچ کو پھیلانے میں مرکزی کردار ادا کرنے لگا۔ اسی سال ہرٹسل نے سویٹزرلینڈ کے شہر بال میں ایک صیہونیستی کانگرس کی تشکیل کا اہتمام کیا۔ اس کانگرس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین میں ایک یہودی مرکز ایجاد کیا جائے اور ایک بین الاقوامی صیہونی تنظیم کی بنیاد ڈالی جائے جس کا ہدف "یہودی قوم کیلئے ایک آزاد اور خودمختار وطن کا قیام” ہو۔ اسی طرح اس کانگرس میں ہرٹسل کو بین الاقوامی صیہونی تنظیم کے صدر اور دوسرے افراد میں سے اس کے معاونین کے طور پر انتخاب کیا گیا۔

سرزمین موعود

سرزمین موعود یا ارض موعود سے صیہونیوں کی مراد فلسطین ہے۔ یہ سرزمین صیہونیوں کی طرف سے یہودی حکومت کے قیام کی اصلی جگہ کے طور پر پیش کی گئی۔ یاد رہے کہ شروع میں صیہونیوں کے درمیان یہودی حکومت کی تشکیل کی جگہ کے بارے میں اختلافات پائے جاتے تھے۔ برطانیہ نے بھی یہودیوں کے حامی کے طور پر ان کو اس بارے میں مختلف مشورے دیئے تھے۔ 1902 میں برطانیہ نے ہرٹسل کی سربراہی میں ایک یہودی وفد کو صحرای سینا میں یہودی وطن قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ یہودی انجینئرز نے وہاں جا کر کچھ مطالعات انجام دیئے اور پھر یہ کہ کر اس پیشکش کو رد کر دیا کہ وہاں کی سرزمین ایک ریگ زار اور صحر ہے جو ان کیلئے مناسب نہیں ہے۔ اسکے بعد برطانیہ نے انہیں یوگنڈا اور چاڈ کے علاقے کی پیشکش کی لیکن یہودیوں نے اسکو بھی قبول نہیں کیا۔

یہودیوں نے اپنی کانگرس میں صرف فلسطین کو سرزمین موعود کے طور پر پیش کیا۔ برطانی  جو خلافت عثمانی کو توڑنے کا ارادہ سر میں لئے ہوئے تھا نے یہ مطالبہ قبول کر لیا اور روس اور فرانس سے بھی اس بارے میں مذاکرات کئے۔ یہ معاہدہ جو 1916 کے اوائل میں برطانوی نمائندے مارک سایکس اور فرانسوی نمائندے جرج پیکو کے درمیان طے پایا "سایکس پیکو” معاہدے کے نام سے معروف ہے۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ فلسطین کی دو اہم بندرگاہیں عکا اور حیفا برطانیہ کو دے دی جائیں۔ اس خفیہ معاہدے کے بعد برطانیہ نے ایک بیانیہ صادر کیا جس میں یہودیوں کے وطن کا ذکر کیا گیا۔ یہودی اور صیہونیست اس بیانیہ سے بہت خوش ہوئے۔ اس طرح صیہونزم کے سیاسی اقدامات اور برطانیہ کی حمایت دنیا کے مختلف حصوں سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بنی۔

صیہونزم کے حامی یہودی

اس زمانے میں یہودیوں کے اندر مذہبی اعتقادات کے حوالے سے دو بڑے دھڑے پائے جاتے تھے۔ ایک مذہبی دھڑا اور دوسرا سیکولر دھڑا۔ سیکولر دھڑے کی اکثریت چونکہ سیاسی طور پر سرگرم تھی لہذا اس نے فوراً صیہونزم کو قبول کر لیا۔ لیکن یہودیوں کا مذہبی دھڑا صیہونزم کے مقابلے میں دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک گروہ جو صیہونزم کا حامی تھا "مذہبی صیہونزم” کے نام سے معروف ہو گیا اور دوسرا گروہ جو صیہونزم کا مخالف تھا "متعصب ارتھوڈوکس” یا "شدت پسند” کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اس تقسیم بندی سے باہر بھی ایسے یہودی موجود ہیں جو صیہونزم کے مخالف ہیں۔ سیاسی صیہونزم کی تشکیل کے بعد دنیا کے مختلف علاقوں سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی نقل مکانی کی کوششیں تیز ہو گئیں۔ فلسطین کی طرف ہجرت کرنے والے یہودیوں میں اکثر تعداد ایسے متعصب یہودیوں کی تھی جو شدید صیہونیستی تمایلات کے حامل تھے اور مقامی افراد چاہے وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی کے ساتھ اختلافات کا شکار تھے۔ فلسطین کے مقامی افراد انہیں ایسے غاصب کی نظر سے دیکھتے تھے جو سیاسی، جارحانہ اور نسلی اہداف رکھتے ہوں۔ لہذا ان مہاجروں نے برطانیہ کی مدد سے پہلے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کیا اور پھر وہاں کی حاکمیت مقامی افراد سے چھین لی۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے