پیغمبر اسلام سے متعلق متنازع بیانات پر انڈیا میں مظاہرے

fa4a17f0-8537-11ef-822c-a50726bfda2e.jpg

پیغمبرِ اسلام کے بارے میں سخت گیر ہندو سادھو یتی نرسنگھانند کے حالیہ متنازع بیانات کے بعد اُن کے خلاف انڈیا کی متعدد ریاستوں میں احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔ اُتر پردیش کے بعض علاقوں میں تو صورتحال کشیدہ ہے تاہم ریاست مہاراشٹر اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسلمانوں نے یتی نرسنگھانند کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرے کیے ہیں۔

سعودی عرب میں حرمین شریفین (مکہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی) کی انتطامیہ نے بھی ہندو سادھو کے ’اشتعال انگیز بیانات‘ کی مذمت کی ہے۔ حرمین شریفین انتظامیہ کی جانب سے فیس بُک پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’حرمین شریفین ایک انڈین مبلغ کے اُس بیان کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے جس میں پیغمبرِ اسلام کی اہانت کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ہم بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے عناصر کو روکیں جو مذہبی منافرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی کا پیغام پھیلانے کے ساتھ ساتھ اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کو بھی روکنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

یاد رہے کہ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں غازی آباد کے شیو شکتی مندر کے مہنت یتی نرسنگھانند کو مبینہ طور پر پیغمرِ اسلام کے خلاف متنازع بیانات دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی ملک کی کئی ریاستوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد حیدرآباد میں اس سادھو کے خلاف ایف آئی درج کروائی گئی ہے۔دوسری جانب مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے پولیس کمشنر سے درخواست کی ہے کہ ’یتی نرسنگھانند کے خلاف نہ صرف مذہبی منافرت پھیلانے پر مقدمہ درج کیا جائے بلکہ انھیں فوراً گرفتار کیا جائے کیونکہ وہ اس طرح کے اہانت آمیز بیانات پہلے بھی دے چکے ہیں۔‘

اُدھر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بھی مبینہ متنازع بیانات کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہوئے ہیں جس میں مظاہرین نے یتی نرسنگھا کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ غازی آباد کی پولیس نے نقضِ امن کے خطرے کے پیشِ نظر مہنت یتی نرسنگھا کو حفاظتی تحویل میں لے رکھا ہے۔جمعیت العلما ہند اور جماعت اسلامی انڈیا نے بھی نرسنگھا کے بیانات کی مذمت کی ہے اور انھیں فوراً گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مہاراشٹر میں کئی مقامات پر یتی نرسنگھا کے خلاف ایف آئی آرز درج کروائی گئی ہیں۔

اپوزیشن راشٹریہ جنتا دل کے ترجمان منوج جھا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یتی نرسنگھانند نہ مذہبی انسان ہیں اور نہ ہی رہنما۔ اس طرح کے بیانات اب ملک میں معمول کی بات بنتے جا رہے ہیں۔ یہ دراصل معاشرے میں مذہبی خطوط پر پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی اس لیے وہ بے خوف ہو کر نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔انڈیا کے مسلمانوں اور ہندوتوا کی سیاست پر کئی کتابوں کے مصنف ضیا السلام نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا میں اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے اس لیے اس طرح کے بیانات پر کوئی حیرت نہیں ہوںی چاہیے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’یتی نرسنگھا ہندوتوا کے پیادہ سپاہی ہیں۔ اور جو کچھ بی جے پی کے بڑے رہنما معمول کے حالات میں خود نہیں کہ سکتے وہ یہ لوگ کہتے ہیں۔ مذہبی منافرت کی سیاست میں یہ لوگ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انھیں حکومت کی بالواسطہ طور پر پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔‘ضیا السلام مزید کہتے ہیں کہ ’انھیں فوراً خاموش نہیں کروایا جاتا، اعلیٰ سطح پر حکومت کی جانب سے کبھی بھی اُن کے ان اقدامات کی مذمت نہیں ہوتی اور اگر کبھی گرفتار کر بھی لیا جائے تو بھی ایف آئی آر میں ایسی دفعات لگائی جاتی ہیں کہ انھیں فوراً ہی ضمانت مل جاتی ہے۔یاد رہے کہ یتی نرسنگھا نند ماضی میں بھی متعدد مواقع پر مذہبِ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے بارے میں متنازع بیانات دے چکے ہیں۔

نرسنگھا کے مبینہ متنازع بیانات کے کئی روز بعد اُتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ ’کسی بھی مذہب کے دیوتا، روحانی شخصیات اور سادھو سنتوں کے خلاف اہانت آمیز بیان ناقابل قبول ہے۔‘لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’احتجاج کے نام پر نراجیت کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘ انھوں نے اس سلسلے میں پولیس حکام کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی شخص جو اعلیٰ مذہبی شخصیات کے بارے میں اہانت آمیز بیان دے گا اس کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

انڈیا کا توہین مذہب کا قانون کیا ہے؟

انڈیا میں توہین مذہب کا قانون پاکستان کے قانون سے مختلف ہے۔ یہاں اسلام اور پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیانات کے لیے الگ سے قوانین نہیں ہیں۔ انڈیا میں توہین مذہب کا قانون نفرت و اشتعال انگیز تقریروں کے انسداد کے قانون کا ایک حصہ ہے جس میں سبھی مذاہب کی اہانت کا احاطہ ہوتا ہے۔تعزیرات ہند جسے اب ’بھارتیہ نیائے سنگھیتا‘ کہا جاتے ہے کی نئی دفعات 299 سے 302 تک میں مذہبی اہانت اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کے معاملات کی تشریچ کی گئی ہے۔ دفعہ 299 میں درج ہے کہ ’کوئی بھی شخص دانستہ طور پر اور بدنیتی سے انڈیا کے کسی بھی شہری کے مذہبی جذبات کو تحریری، زبانی، اشارے یا تصویروں یا الیکٹرانک ذریعے سے مجروح کرتا ہے، یا کسی مذہب کی توہین یا کسی کے مذہبی عقیدے کی اہانت کرتا ہے، تو اسے تین برس تک قید کی سزا یا جرمانہ یا پھر دونوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اسی طرح دفعہ 302 میں لکھا ہے کہ ’کوئی بھی شخص جو کسی شخص کے مذہبی جذبات کو دانستہ طور پر مجروح کرنے کے لیے کوئی بات کہتا ہے، اس مقصد سے کوئی آواز ںکالتا ہے یا کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو ایسا شخص زیادہ سے زیادہ ایک برس تک کی قید اور جرمانے یا دونوں کی سزا کا مستخق ہو گا۔یتی نرسنگانند کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ماضی میں مذہبی جذبات مجروح کرنے کے کئی کیس ہونے کے باوجود انھیں ان معاملات میں انھیں ضمانت ملتی رہی ہے۔

انڈیا میں مذہبی اہانت کے کئی اہم معاملات رونما ہوئے ہیں۔ بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلام اور پیغمبروں کے بارے میں اہانت آمیز بیانات کا عموماً تعلق ہندوتوا کی وسیع تر سیاست سے ہے اور اس طرح کے بیانات اکثر انتخابات کے دوران زیادہ آتے ہیں جن کا مقصد لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا ہوتا ہے تاکہ انتخابی فائدہ اٹھایا جا سکے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سینکڑوں چھوٹی بڑی سخت گر نوعیت کی ہندو مذہبی تنظیمں وجود میں آئی ہیں جو مذہبی منافرت کی بنیاد پر دیگر مذاہب بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بناتی رہتی ہیں۔

یتی نرسنگھانند سرسوتی کون ہیں؟

شمالی ہندوستان کی ریاست اُتر پردیش (یو پی) سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ یتی نرسنگھانند سرسوتی کی شخصیت انتہائی متنازع رہی ہے۔ اُن پر ناصرف اسلام اور پیغمبر اسلام بلکہ خواتین اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جارحانہ تبصرے کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اور اس ضمن میں ان کے خلاف انڈیا بھر میں درجنوں کیسز بھی درج ہیں۔سنہ 2022 میں ان کے ایک قریبی دوست انیل یادو نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ نرسنگھا کے خلاف درج مقدمات درحقیقت اُن کے ’ماتھے کا جھومر‘ ہیں اور یہ کہ انھیں ان مقدمات سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر ان کی فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ماضی میں وہ مبینہ طور پر مسلمانوں کو ’شیطان‘ قرار دے کر انھیں ’ختم کرنے‘ کی دھمکی دے چکے ہیں جبکہ اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ ’اسلام سے پاک ہندوستان‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔نرسنگھا کا اصل نام دیپک تیاگی ہے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے انجینیئرنگ کی تعلیم روس سے حاصل کی جس کے بعد انھوں نے کچھ عرصہ برطانیہ میں کام گیا مگر پھر وہ واپس انڈیا چلے آئے۔ سنہ 2007 میں وہ طاقتور دسنا مندر سے بطور پجاری منسلک ہوئے

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے