نوجوانوں کو گستاخی کے مقدمات میں پھنسانے والا گروہ
اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں گزشتہ ہفتے ایک غیرمعمولی پریس کانفرنس منعقد ہوئی۔ گستاخانہ مواد آن لائن پوسٹ کرنے یا شیئر کرنے کے الزام میں جیل میں قید نوجوانوں کے والدین اور رشتہ داروں نے پریس کانفرنس کی جہاں انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ’توہین مذہب کو کاروبار بنانے والے گروپ‘ کی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دے۔ خاندانوں نے دعویٰ کیا کہ اس گروپ نے ان کے پیاروں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا۔اس گروپ کا وجود محض تصوراتی نہیں یا پھر اپنے پیاروں کی زندگیاں بچانے کے لیے اس کا نام نہیں لیا جارہا بلکہ یہ اصطلاح تو پنجاب پولیس کی اسپیشل برانچ کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں سامنے آئی تھی۔
اس رپورٹ میں اسپیشل برانچ نے بتایا کہ یہ گروپ نوجوانوں کو ’منظم انداز میں‘ گستاخی کے مقدمات میں ’پھنساتا‘ ہے۔ اسپیشل برانچ کے مطابق ایف آئی اے کے پاس درج کیے جانے والے اس نوعیت کے 90 فیصد مقدمات میں اس گینگ کے خلاف شکایت دائر کی گئی ہے جبکہ مبینہ طور پر اس کا شکار ہونے والوں میں مسلمان لڑکے لڑکیاں شامل ہیں جن کی عمر 20 یا اس سے بھی کم ہے جو غریب یا نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان مقدمات میں سیکڑوں نوجوان ملک بھر کی جیلوں میں قید و بند کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔
یہ جال فیس بُک اکاؤنٹس اور واٹس ایپ گروپس پر بچھایا جاتا ہے جہاں مذہب سے متعلق معاملات پر بات چیت ہوتی ہے۔ ایسے گروپس کو جوائن کرنے کے لیے چند نوجوانوں کو ٹارگٹ کرکے کو مدعو کیا جاتا ہے اور عموماً مدعو بھی خواتین گینگ ممبران کرتی ہیں۔یہاں تک تو سب ٹھیک لگتا ہے لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ بالکل بھی عام نہیں۔ ایک کیس میں متاثرہ نوجوان کے والد نے بتایا کہ ان کے بیٹے سے ایک خاتون نے رابطہ کیا اور اس کے ساتھ آن لائن تعلقات قائم کیے اور پھر کچھ عرصے بعد ان کے بیٹے کو لڑکی نے گستاخانہ مواد بھیجا۔ جب ان کے بیٹے نے لڑکی سے اس حوالے سے سوال کیا تو لڑکی نے دعویٰ کیا کہ اس کا فون ہیک ہوچکا ہے لہٰذا وہ اسے وہ مواد بھیجے تاکہ اسے پتا چلے کہ کیا مواد پوسٹ کیا گیا ہے۔ ان کے بیٹے نے جب ایسا کیا تو چند گھنٹوں بعد گستاخانہ مواد پھیلانے کے الزام میں ایف آئی اے کی ٹیم ان کے دروازے پر بیٹے کو گرفتار کرنے آچکی تھی۔
پریس کانفرنس میں شریک 40 یا اس سے زائد خاندانوں نے کچھ اسی طرح کی کہانیاں سنائیں اور سب ہی نے نشاندہی کی کہ ایف آئی اے کی ٹیم ریکارڈ کم وقت میں ان کے رشتہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار تھی جو کسی حد تک اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ جال سازی کے اس پورے معاملے میں کسی حد تک مبینہ طور پر اس کے اہلکار بھی ملوث ہوسکتے ہیں۔جہاں تک متعلقہ گروپ کا تعلق ہے، اسپیشل برانچ کی رپورٹ اس گروپ کا ممکنہ مقاصد میں بھتہ خوری اور بلیک میلنگ شامل ہوسکتی ہے اور سفارش کرتی ہے کہ ایف آئی اے اس گروہ کے خلاف تحقیقات شروع کرے اور شکایت کنندگان کے موبائل فونز کی فرانزک جانچ کرے۔
یہ پریشان کُن ضرور تھا لیکن حیران کُن نہیں تھا کہ اس پریس کانفرنس کو ہمارے ملکی میڈیا (ٹی وی پر اس متعلق کوئی رپورٹ نہیں چلی جبکہ اخبارات میں محض ایک اسٹوری شائع ہوئی) کی جانب سے انتہائی کم توجہ ملی جبکہ اسپیشل برانچ کی رپورٹ کو بھی آزاد میڈیا آؤٹ لیٹ فیکٹ فوکس نے کور کیا۔ اس سے بھی پریشان کُن لیکن ایک بار پھر حیران کُن نہیں تھا کہ یہ رپورٹ رواں سال جنوری کو ایف آئی اے، چیف سیکریٹری پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری کو بھیجی گئی لیکن اس معاملے سے متعلق کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
گزشتہ چند مہینوں میں ہم نے توہین مذہب کے نام پر 4 افراد کا قتل دیکھا ہے۔ مئی میں سرگودھا میں نذیر مسیح پر گستاخی کا الزام لگایا گیا اور ہجوم نے اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس نے اسے ہجوم سے بچا لیا لیکن بعد میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ جون میں سوات میں ایک سیاح محمد اسمعٰیل کی جانب سے مبینہ طور پر قرآنی آیات کی بےحرمتی اور ہجوم نے تھانے میں گھس کر اسے زدوکوب کیا اور وہ ہلاک ہوگیا۔ستمبر میں کوئٹہ میں عبدالعلی پر توہین رسالت کا الزام تھا، مشتعل ہجوم نے اس تھانے میں داخل ہونے کی کوشش کی کہ جہاں اسے رکھا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے اسے نسبتاً محفوظ مقام پر منتقل کیا جہاں ایک پولیس اہلکار نے اسے گولی مار کر قتل کردیا۔ اس پولیس اہلکار کو بعدازاں مقامی مولویوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک ہیرو کے طور پر سراہا۔
پھر عمر کوٹ کے ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کا کیس ہے جن پر توہین رسالت کا الزام تھا اور پھر مبینہ مقابلے میں پولیس نے انہیں ہلاک کردیا جس کے بعد مقامی مولویوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی آئی جی اور پولیس افسران کو پھولوں کے ہار پہنائے۔کوئٹہ اور سوات واقعات کے برعکس کہ جہاں مقتولین کے اہل خانہ نے قاتلوں کو معاف کردیا، ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے اہل خانہ نے انصاف کا مطالبہ کیا اور عمرکوٹ میں ایک عوامی احتجاج میں ہزاروں کی تعداد میں ریلی کے شرکا، ان کے اہل خانہ کی آواز بنے جو کہ ان معاملات میں ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔اب یقیناً ردعمل سامنے آرہا ہے اور وہ جماعتیں جو ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے قتل پر اُکسا رہی تھیں، وہ اب پولیس کے دفاع اور ان کی کارروائی کو درست ثابت کرنے کے لیے ریلیاں نکال رہی ہیں۔ چاہے طاقت کی کتنی بھیانک قیمت کیوں نہ چکانا پڑے پھر بھی طاقت اور اثرورسوخ ایسی چیزیں ہیں جنہیں انسان اپنے ہاتھ میں ہی رکھنا چاہتا ہے۔