آیت اللہ علی خامنہ کی رائفل، بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اور انتونیو گوتریس پر اسرائیلی پابندی

محمد-اکرم-300x200.jpg

ایران خبروں میں ہے اور دنیا بھر کے میڈیا کی نظریں ایران کی حکومت پر ہیں۔ بالخصوص اسرائیل پر جوابی حملے کے بعد اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو لگی آگ کی شدت ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے۔ بالخصوص امریکہ کو ایران کے جوابی حملے سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔ کاش ایسی تکلیف امت مسلمہ کے حکمرانوں کا فلسطین، یمن، لبنان اور شام میں اسرائیلی افواج کے حملوں سے پہنچتی اور مسلم دنیا بھی ویسے ہی ردعمل دیتی جیسے امریکہ نے ایران کی طرف سے اسرائیل پر جوابی حملے کے بعد دیا ہے۔

آج مسلم دنیا کو ایسے اتحاد کی ضرورت ہے اور بدقسمتی ہے امت مسلمہ اتحاد کی دولت سے محروم اور تقسیم جیسی برائی سے بھرپور ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مسلمان ممالک کا بلاک تعین کرے فیصلہ کرے کہ دنیا کے کس ملک کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے ہیں، کس ملک کا بائیکاٹ کرنا ہے، کس سے تجارت کرنی ہے، کس سے نہیں کرنی، مسلمان ملک دنیا کی بڑی معاشی طاقت ہیں، قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہیں۔ تمام تر صلاحیتوں کے باوجود وہ فیصلے جو مسلم ممالک کے حکمرانوں کو کرنے چاہییں وہ کوئی اور کر رہا ہے۔

یہ کیسی افسوس ناک صورتحال ہے اور ہم ہیں کہ اس طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ ان حالات میں فلسطین، لبنان ، شام اور یمن کے مسلمانوں کی حالت پر تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن ان کی بہادری، جرات، شجاعت اور کلمے کے مر مٹنے کے جذبے میں کسی قسم کی کمی نہ آنا ہمارے لیے سبق ہے، کیا مشرق وسطی کے یہ ممالک اسلحے کے زور پر دنیا کی بڑی طاقتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یقینا نہیں وہ جذبہ ایمانی سے اسلام دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہیں، وہ گردنیں کٹوا رہے لیکن اسلام دشمنوں کے سامنے گردنیں جھکانے کو تیار نہیں ہیں ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جنگی ہتھیاروں ، جنگی ساز و سامان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جذبہ ایمانی سب سے اہم جز ہے جب تک ایک مسلمان تکلیف میں مبتلا مسلمان کی تکلیف کا احساس نہیں کرے گا اس وقت تک ایسے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

ایران کے سپریم لیڈر نے موجودہ حالات میں جس انداز میں خطبہ جمعہ دیا ہے اس عمل سے مسلمانوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں پر بمباری ہوتی رہے اور مسلمان ممالک صرف مذمتی بیانات تک محدود رہیں ۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تہران میں رائفل تھامے جمعے کا خطبہ دیا۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد آیت اللہ علی خامنہ ای نے گذشتہ روز پہلی بار عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ اپنے خطبے کے دوران انہوں نے بارہا اپنے پہلو میں رکھی رائفل کی بیرل کو تھاما۔ اس طریقے کو ایرانی علما نے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں اپنایا تھا۔

خطبے میں آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ مسلمان قوموں کو افغانستان سے یمن، ایران سے غزہ اور لبنان تک دفاعی لائن بنانا ہو گی، ہر ملک کو جارح کیخلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، مسلمان متحد ہو جائیں تو دشمنوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ ہم سب کا دشمن ایک ہے اور اس کی پالیسی مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی ہے، ایران کا دشمن فلسطین، لبنان، عراق، مصر، شام اور یمن کا دشمن ہے۔ جس طرح سات اکتوبر کاحملہ جائز تھا اسی طرح ایران کا اسرائیل پر حملہ جائز ہے، ضرورت ہوئی تو مستقبل میں بھی کارروائی کریں گے، ہم اسرائیل کو جواب دینے میں تاخیر نہیں کریں گے اور نہ ہی جلدی کریں گے، اسرائیل قتل و غارت اور عام شہریوں کو قتل کر کے جیتنے کا ڈرامہ کر رہا ہے، اسرائیلی حکومت کے جرائم اس کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس مشکل وقت میں امت مسلمہ کو اتحاد کا پیغام دے کر سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ کوئی جاگتا ہے یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا لیکن جگانے والے نے اپنا کام کرنا ہے۔ نتیجہ اس کے بس میں نہیں ہے، ہمیں اپنی حصے کا دیا جلانا ہے اور یہی ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ اسرائیل طاقت کے نشے میں ہے وہ عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں میں مصروف ہے اور اب تو اس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے اسرائیل میں داخلے پر پابندی لگا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک عالمی قوانین معنی نہیں رکھتے۔انتونیو گوتریس متعدد بار غزہ اور فلسطینی بچوں کے قتل عام پر افسوس کا اظہار کرچکے ہیں اور اس پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ یعنی مظلوم کے لیے آواز بلند کرنا انتونیو گوتریس کا جرم ٹھہرا ہے۔

اقوام متحدہ نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی کو سیاسی عمل قرار دیا ہے۔ ویانا کنونشن کے تحت ایک ملک دوسرے کے سفارتکار کو نا پسندیدہ شخصیت قرار دے سکتا ہے مگر عالمی تنظیم خصوصاً اقوام متحدہ کو عملے پر پابندیاں عائد نہیں کی جا سکتی ہیں۔ وہ ممالک جو کہ اقوام متحدہ کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں اور وہ اسرائیل کی حمایت بھی کرتے ہیں کیا اسرائیل کی انتونیو گوتریس کے خلاف اس کارروائی پر کچھ بولنے اور جوابی اقدام کی جرات کریں گے۔ کیا کمال ہے کہ اسرائیل نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیوگوتریس اسرائیل پر پابندی صرف اس لیے عائد کہ وہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کی مناسب مذمت نہیں کر سکے۔

خبر یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آ رہے ہیں۔ بھارتی دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پندرہ اور سولہ اکتوبر کو اسلام آباد میں ہو گا۔ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے بھرپور تیاری کرنی چاہیے، ملک میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ہر قسم کے سخت موقف کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات اچھے نہیں ہیں اور نہ ہی بھارتی حکومت تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مناسب ماحول بنا رہی ہے۔ ان حالات میں بھارتی وزیر خارجہ کا شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کے لیے دورہ پاکستان میں کسی بڑی پیشرفت کا امکان کم ہے۔

آخر میاں ڈاکٹر کبیر اطہر کا کلام

کچھ ایسے ڈھب سے ہْنر آزمایا کرتا تھا
مَیں اْس کا جھوٹ بھی سچ کر دکھایا کرتا تھا
اور اب تو میں بھی سرِ راہ پھینک دیتا ہوں
کبھی میں پھول ندی میں بہایا کرتا تھا
کہیں میں دیر سے پہنچوں تو یاد آتا ہے
کہیں میں وقت سے پہلے بھی جایا کرتا تھا
مرے وجود میں جب بھی گھٹن سی ہوتی تھی
میں گھر کی چھت پہ کبوتر اڑایا کرتا تھا
بس اتنا دخل تھا میرا خدا کے کاموں میں
میں مرتے لوگوں کی جانیں بچایا کرتا تھا
یہ خود مجھے بھی بڑی دیر میں ہوا معلوم
کہ کوئی دکھ مجھے اندر سے کھایا کرتا تھا
میں اس کے عشق میں پاگل تھا پھر بھی دل میرا
مرے خلوص پہ تہمت لگایا کرتا تھا
لٹا کے نقدِ دل و جاں حسین چہروں پر
میں اپنی عمر کی قیمت چکایا کرتا. تھا
کچھ اس لیے بھی زیادہ تھی روشنی میری
کہ میں چراغ نہیں دل جلایا کرتا تھا
یہ میں جو ہاتھ ہلاتا تھا راہ چلتے ہوئے
میں شہرِ خواب کے نقشے بنایا کرتا تھا
ہمارے دل میں بھی اک جوئے آب تھی جس میں
کسی کی یاد کا پنچھی نہایا کرتا تھا

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے