’حکومتی اتحاد سپریم کورٹ میں بڑھتی اندرونی تقسیم کا فائدہ اٹھا رہا ہے‘

1838.jpg

ہمارا ملک آئینی ٹوٹ پھوٹ کی جانب گامزن ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے کیونکہ ادارے باہمی تصادم کی صورت حال کا شکار ہیں۔ایک سرکش حکومت عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل سے انکاری ہے اور خود سپریم کورٹ کے اندر بڑھتی تقسیم نے مزید تعطل پیدا کیا ہے۔ فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی جانب سے ایک مضبوط عدلیہ پر قابو پانے کی مایوس کن کوششوں نے ریاست کو بحران میں دھکیل دیا ہے۔ اداروں کے درمیان تصادم کب ختم ہوگا، یہ فی الوقت غیر یقینی ہے۔بہ ظاہر متزلزل مخلوط حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان ایک ناپاک گٹھ جوڑ کی بنا پر بحران کی صورت حال پیدا ہوئی۔ غیر معمولی طور پر دونوں نے 12 جولائی کے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا کہ جس میں عدالت عظمیٰ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بھی مختص حصہ دینے کا حکم دیا تھا۔

جس امر نے عمل درآمد نہ کرنے پر حکومت کی حوصلہ افزائی کی وہ اعلیٰ ججز کے درمیان بڑھتا تناؤ کا منظر عام پر آ جانا ہے۔ آئندہ ماہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کے درمیان تقسیم کا مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت مکمل فائدہ اٹھا رہی ہے کیونکہ اس سے حکمران اتحاد کو اعلیٰ عدالتی سیٹ اپ کے اختیارات کو نقصان پہنچانے کا بھرپور موقع ملے گا۔یہ تو واضح ہے کہ حکومت عدالت عظمیٰ کے فُل کورٹ بینچ کا جھکاؤ اپنی جانب کرنے کے لیے چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ صدر کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین آرڈیننس نے چیف جسٹس کے ’ماسٹر آف دی روسٹر‘ کے اختیارات کو عملی طور پر بحال کردیا ہے جو اس سے قبل قانون سازی کے ذریعے محدود کر دیے گئے تھے۔بدقسمتی سے بہت سے لوگوں نے اس پورے معاملے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کردار سے یہ توقع نہیں کی تھی جو کہ ملک کے اعلیٰ ترین جج سے عام طور پر کی جاتی ہے۔

آرڈیننس کے نفاذ کے چند گھنٹوں بعد ہی چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو برطرف کرکے تین رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی دوبارہ تشکیل دی۔ یاد رہے کہ جسٹس منیب اختر تین سینئر ترین ججز میں شمار کیے جاتے ہیں جبکہ یہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں دینے والے اکثریتی ججز میں بھی شامل تھے۔ دوسری جانب سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کو غیرضروری قرار دیا اور اپنی پسند کے رکن کی شمولیت کو غیرجمہوری قرار دیا۔ اسے ’ون مین شو‘ قرار دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے آرڈیننس پر فل کورٹ عدالتی جائزے کے حکم کا مطالبہ کیا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس جوکہ اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے ہیں، کیا وہ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی اور تقدس کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بہت سے لوگوں کے نزدیک عدلیہ میں تقسیم میں ان کا کردار ہے۔

یہ ایسا عنصر ہے جو حکومت کو سپریم کورٹ کو کمزور کرنے کی تقویت دے گا۔ یہ ایک پُرخطر کھیل ہے جوکہ پورے نظام کو تباہ کرسکتا ہے اور ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک سکتا ہے۔مخصوص نشستیں دینے سے حکومتی انکار کا منصوبہ یہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلے۔ حکومت کو اکثریت اس لیے درکار ہے کیونکہ حکومتی اتحاد کو ایک آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کا مقصد ایک نام نہاد عدالتی اصلاحاتی پیکج کی آڑ میں اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات کو ختم کرنا ہے۔ حکومتی اتحاد نے مطلوبہ اعداد حاصل کرنے میں اپنی گزشتہ ناکامی کے باوجود ابھی آئینی ترمیم لانے کا اپنا ارادہ ترک نہیں کیا ہے۔دوسری جانب حکومت نے انتخابی قوانین میں چند تبدیلیاں کی ہیں تاکہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق حکم نامے پر عمل درآمد کو روکا جاسکے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر بتایا کہ عدالتی حکم کی تعمیل نہیں ہوسکتی۔ حکومت اور اعلیٰ ججز کے درمیان چپقلش نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلے کے بعد ہی شدت اختیار کی۔

وفاقی وزیرِ قانون نے تفصیلی فیصلے کو یکسر مسترد کردیا ہے اور وضاحت دی کہ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی جارہی ہیں اور قانون کے تحت قانون سازوں سے متعلق اس طرح کا فیصلہ دے کر معاملات کو پلٹنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تفصیلی فیصلے میں بہت سے سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے، پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ترجیح دی جائے گی۔ملکی تاریخ میں آمرانہ دور کے علاوہ شاید ہی ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوئی ہو کہ جس میں حکومت نے اتنی ڈھٹائی سے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہو۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کوئی ابہام نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کے اپنے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور اسے پارلیمانی قوت تسلیم کرنے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ یہ 5-8 سے دیا جانے والا فیصلہ تھا لیکن مخالفت میں ووٹ دینے والے تین ججز نے بھی اتفاق کیا تھا کہ پی ٹی آئی ایک پارلیمانی جماعت ہے اور اسے مخصوص نشستوں میں حق دینے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جو بات حکومت ماننے کو تیار نہیں وہ یہ ہے کہ چاہے اسے پسند ہو یا نہ ہو، سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل تمام ریاستی اداروں پر لازمی ہے۔

کسی طرح کی خلاف ورزی سنگین آئینی بحران کو جنم دے سکتی ہے جوکہ ریاست کی بنیادوں کو ہلا سکتا ہے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کا کردار ابتدا سے ہی مشکوک رہا ہے۔ انتخابی معاملات کے نگران ادارے نے کبھی بھی غیرجانبدار ادارے کے طور پر آزاد اور شفاف انتخابات کی ضمانت نہیں دی۔عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے سے ان کی ہچکچاہٹ نے ان الزامات کو مزید تقویت دی ہے کہ یہ ادارہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتا ہے۔آج ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بڑی حد تک رواں سال فروری میں الیکشن کمیشن کے ماتحت ہونے والے متنازع انتخابات کے نتیجے میں ہورہا ہے۔ انتخابات میں ہیرا پھیری کرکے ایک متنازع اور قابلِ اعتراض حکومت کو اقتدار دیا گیا جس نے پورے سیاسی نظام کو مسخ کیا۔

مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ، الیکشن کمیشن پر فردِجرم عائد کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے تعصب میں غیرقانونی اقدامات کیے۔ مزید بتاتا ہے کہ ’ایک بڑی سیاسی جماعت کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے اور ان کے نامزد امیدواروں کو آزاد تصور کرکے، ادارے نے نہ صرف ان امیدواروں کے حقوق پر سمجھوتہ کیا بلکہ ووٹرز کے حقوق کی بھی خلاف ورزی کی‘۔ حکم نامے میں ان غیرقانونی اقدامات کے لیے کہا گیا کہ انہوں نے ’ادارے کی قانونی حیثیت کو خراب کیا‘۔حکم لکھنے والے جسٹس منصور علی شاہ نے تنبیہ کی تھی کہ عدالتی حکم کی تعمیل لازمی ہے اور اس پر عمل نہ کرنے کے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ درحقیقت اعلیٰ عدلیہ کے لیے امتحان ہے جن سے توقع ہے کہ وہ آئینی اختیارات کا دفاع کریں گی اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھیں گے۔ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ منقسم ادارہ کیسے آئین پر کیے جانے والے اس حملے کا مقابلہ کرتا ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ سوال ہے کہ کیا ہمارا سیاسی نظام تمام متوقع خطرات کا سامنا کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے